بلوچستان فزیوتھراپی ایسوسی ایشن نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ فزیوتھراپسٹ گذشتہ چھ مہینوں سے اپنے چھ جائز اور آئینی مطالبات کے حق میں سراپا احتجاج ہیں۔ پچھلے 14 دنوں سے تادمِ مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے ساتھیوں کی حالت انتہائی خراب اور تشویشناک ہوتی جارہی ہے۔ اکثر ہڑتالی ڈاکٹرز کی حالت غیر ہوگئی، ڈاکٹر جاوید اور ڈاکٹر نثار کو تشویشناک حالت میں سول ہسپتال منتقل کردیا گیا۔
“ہمیشہ کی طرح عوام دشمن، سیلکٹڈ اور سوئی ہوئی صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ بلوچستان کی روایتی، بے بسی، بے ضمیری اور ہٹ دھرمی برقرارہے۔ بیورو کریٹس اور صوبائی حکومت کی بے بسی کا عالم ہیں جو نوجوان فزیوتھراپسٹ گذشتہ 14 دنوں سے سخت سردی میں فٹ پاتھ پر زندگی اور موت کے کشمکش میں ہے، حکومت خود پسماندہ صوبے میں رہی سہی نظام صحت تباہ و برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔”
انہوں نے کہا کہ بلوچستان ایک ہی وقت وہ واحد خوشحال اور بدحال صوبہ ہے جہاں بیشتر توانائی اور غیر توانائی معدنی وسائل ہونے کے باوجود یہ خطہ اس جدید دور میں صحت، تعلیم، روزگار اور محض ہر ضروریات زندگی سے محروم ہیں۔ صوبے میں تعلیمی ادارے زبوحالی اور شدید مالی بحران کے شکار ہیں۔ گوسٹ اسکول ملک بھر میں سب سے زیادہ اسی صوبے میں موجود ہیں۔ بلوچستان معیاری ہسپتال تک موجود نہیں جہاں لوگ اپنی علاج و معالجہ کر سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بے روزگاری کی شرح پورے ملک میں سب سے زیادہ اسی صوبے میں ہے، جہاں تعلیم یافتہ طبقہ بڑی تعداد میں بے روزگار ہے، آج بلوچستان میں بیشر گریجویٹ، سولہ یا سترہ سال پڑھائی کے باوجود بھی اپنی قابلیت کو ثابت کرنے کے لیے روڑوں اور کیمپوں میں ذلیل وخوار ہیں۔ تادم مرگ بھوک ہڑتال جیسے عمل کی طرف جانے پر مجبور ہیں جو خودکشی سے کم نہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے نام نہاد حکومتی نمائندوں کے ساتھ وہ قوم پرست پارٹیاں جو ہمیشہ عوامی مسائل کو مذاق بناکر ان کے جذبات سے کھیل کر اپنے پوزیشن حاصل کرنے کے بعد، خود اسی غیور اور مجبور عوام کے مسائل کو حل دینے کے بجائے ان کی زندگیوں سے کھیل کر ان کا گلا گھونٹنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہی اپوزیشن جو گذشتہ حکومت میں اپنی دلائل سے اسمبلی کے فلور کو آسمان پر اٹھا لیتے تھے مگر آج اپنی ذاتی خواہشات اور مفادات کو ترجیح دے کر اپنی ٹھیکوں، اسکیموں اور پرسنٹیج کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف بہانوں کا سہارا لے کر اپنے منہ پر چھپ لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ قوم پرست لیڈر جو ہمیشہ الیکشن سے پہلے عوام کو آکسیجن کا درجہ دے کر اپنی سیاست چمکا پر تُلے ہوئے ہیں لیکن پوزیشن سنبھالنے کے بعد اسی غریب عوام کی حالت پوچھنے سے شرم محسوس کرتے ہیں بلکہ اس عمل سے ان کی شہرت اثر انداز ہوسکتا ہے۔ جو باعثِ تشویش ہے۔
ترجمان نے کہا کہ لہٰذا ہم انسانی حقوق علمبردار تنظیموں، تمام سیاسی حلقوں، ایسوسی ایشنز، طلباء تنظیموں، وکلاء برادری اور تمام مکاتب فکر کے لوگوں سے گزارش کرتے ہیں کہ اس نالائق اور سوئی ہوئی حکومت کو جگانے اور ہمارے مسائل کو حل کرنے میں اپنی کردار ادا کریں اور ہم حکومت بلوچستان سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ جلد سے جلد ہمارے مطالبات تسلیم کریں۔ اگر حکومت کا رویہ اسی طرح رہا۔ تو مجبوراً اپنے مطالبات کے حق میں ہم آخری مراحل تک قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ اگر اس دوران ہمیں اور ہمارے دوستوں کو کچھ بھی ہوا اس کا ذمہ دار حکومت بلوچستان، وزیراعلیٰ بلوچستان اور نام نہاد نمائندے ہونگے۔