کوئٹہ سمیت پورے بلوچستان کو قلت آب کا سامنا

638

بلوچستان کا سب سے بڑا شہر خطرے میں ہے۔کوئٹہ میں زیر زمین پانی کی سطح گرنے لگی۔شہر دھنسنےکاخطرہ بڑھ رہاہے اورکئی عمارتوں میں دراڑیں بھی پڑچکی ہیں۔ اٹھائیس لاکھ سے زائد آبادی کا حامل کوئٹہ سنگین خطرے سے دوچار ہے۔ماہرین کا کہنا ہےکہ یومیہ ضرورت کا 94 فیصدیعنی ڈھائی کروڑگیلن سے زائد پانی ٹیوب ویلوں کی مدد سے زمین سے نکالا جارہا ہے جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح ماہانہ ایک سے ڈیڑھ فٹ گر رہی ہے۔ بعض مقامات پر سطح ایک ہزار فٹ تک گرچکی ہے ۔

ماہرارضیات کہتے ہیں کہ صرف کوئٹہ ہی نہیں بلکہ بلوچستان کے دیگر علاقوں میں زمین میں دراڑیں پڑرہی ہیں اورزمین نیچے دھنس رہی ہے۔ ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ پانی کی سطح گرنے سےزمین کی تہہ میں خلاء پیدا ہوگیا ہے۔زلزلےکی صورت میں شہر بڑی تباہی سے دوچار ہوسکتا ہے۔

بلوچستان میں پانی کے بحران نے اب آفت کی شکل اختیار کرلی ہے۔ کوئٹہ میں 94فیصد پانی زیرزمین نکالا جارہا ہے اور ایسی صورتحال بلوچستان کے اکثر دوسرے علاقوں میں بھی ہے جس کی وجہ سے زیرزمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گرچکی ہے۔ اگر اس صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو صوبے سے بڑی تعداد میں آبادی نقل مکانی پر مجبور ہوجائے گی۔ کوئٹہ   اوربلوچستان  کے دوسرے علاقوں میں بغیر لائسنس کے کسی بھی صورت بور لگانے کی اجازت نہیں دینی چاہیئے۔ زیر زمین پانی کی سطح کو برقرار رکھنے کے لئے ڈیلے ایکشن ڈیمز کی تعمیر بے حد ضروری ہے۔ بصورت دیگر صوبہ بلوچستان صحرا میں تبدیل ہوجائے گا۔

بلوچستان میں زراعت اور کھیتی باڑی سے منسلک زمینداروں کو آب پاشی کے جدید طریقوں اور ٹیکنالوجی کو اپنانا ہوگا کیونکہ روایتی طرز آبپاشی سے پانی بکثرت ضائع ہورہا ہے اور ہم مزید پانی کے ضیاع کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ پانی کے ضیاع کی روک تھام کے لئے بھرپور عوامی آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام میں پانی کے ضیاع کو روکنے کے حوالے سے شعور اجاگر کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ بارانی پانی کو محفوظ کرنے اور سیلاب کی تباہ کاریوں کو کم کرنے کے لئے صوبے کے تمام علاقوں میں چھوٹے، درمیانے اور بڑے لیول کے ڈیمز کی تعمیر کے لئے غیرمعمولی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم سب ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لئے کام کریں۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ ملک کا نواں بڑا شہر ہے اور اس کی آبادی بڑھنے کے شرح ملک کے دوسرے شہروں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔اس بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر پانی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے حکومت، عوام اور زندگی کے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ اور پانی کے تحفظ کے لئے ہرممکن اقدام کو یقینی بنانا ہوگا۔

یہاں میں ایک بات وضح کردوں کہ ہماری زمین کے اندر موجود پانی کے بہاؤ سے چٹانوں خصوصاً چونے کے پتھر سے بنی چٹانوں کے کٹاؤ میں کئی سو سال لگتے ہیں، لیکن صنعتی فضلہ اور سیوریج کا پانی زمین میں جذب ہونے کی وجہ سے ایکوافرز میں موجود پانی تیزابی ہونا شروع ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے چونے کے پتھر سے بنی چٹانوں کے کٹاؤ یا گھُلنے کے عمل میں بہت تیزی سے اضافہ ہوجاتا ہے۔ کراچی کی زیرزمین چٹانیں چونے کے پتھر، ریت اور چکنی مٹی سے بنی ہوئی ہیں۔ پانی میں پیدا ہونے والی تیزابیت krast ٹائپوگرافی کا سبب بنتی ہے جو سنک ہول بننے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

سنک ہول ایک ارضیاتی عمل ہے، جس میں زمین اندر دھنس جاتی ہے۔ سنک ہول بننے کا عمل سطح زمین پر ظاہر ہونے سے بہت عرصے قبل شروع ہوجاتا ہے۔ ہمارے پیرو ں تلے موجود زمین درحقیقت اتنی ٹھوس نہیں ہے جتنا ہم سمجھتے ہیں۔ زمین کی اندرونی سطح مٹی، چٹانوں اور معدنیات پر مشتمل ہے اور زیرزمین موجود پانی ان چٹانوں، مٹی اور معدنیات میں رستا رہتا ہے۔
بعض اوقات قدرتی اور انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں پانی کا بہاؤ تیز ہوجاتا ہے، جو زیرزمین موجود چیزوں کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے اور بہ ظاہر مضبوط نظر آنے والی اوپری سطح کسی بیرونی دباؤ کے نتیجے میں ڈھے جاتی ہے۔ سنک ہول کے بننے کا زیادہ تر عمل زیرزمین موجود ریت اور چٹانوں میں ہونے والے تغیرات کا نتیجہ ہے، تاہم دنیا کے مختلف حصوں میں زمین دھنسنے کے واقعات میں اضافے کا اہم سبب انسانی سرگرمیاں ہیں۔

زیرآب پانی کی کم سطح، بارشوں میں کمی یا مختصر مدت کے لیے بارش کا بہت زیادہ ہونا سنک ہول بننے کی قدرتی وجوہات ہیں۔ بارش کا پانی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے مرجھائے ہوئے نباتات کے ساتھ ری ایکٹ (تعامل) کرتا ہے، جس کے نتیجے میں پانی تیزابی ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ جب یہ تیزابی پانی زیرزمین موجود نفوذ پذیر چٹانوں تک پہنچتا ہے تو ان کی تہہ میں موجود پانی چونے کے پتھروں کو گھلانا شروع کردیتا ہے۔

چونے کے پتھروں کے پانی میں گھلنے کی وجہ سے وہاں خلا پیدا ہوجاتا ہے۔ چونے کی پتھروں کے گھُلنے کی وجہ سے زیرزمین پانی مزید تیزابی اور چٹانوں میں شگاف بڑھتا جاتا ہے۔ زیرزمین موجود پانی نہ صرف چونے کے پتھروں کو کیمیائی طریقے سے گھلاتا ہے، بل کہ زیرزمین پانی کی سطح میں تبدیلیاں اوپری سطح کو ملنے والی سپورٹ پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں۔ زمین کی اوپری سطح پر غیرمعمولی تبدیلیاں رونما ہونے کے نتیجے میں زمین سب چیزوں کو لے کر اس خلا میں دھنس جاتی ہے۔

قدرتی طور پر ہونے والی قحط سالی یا زیرآب پانی کو بہت زیادہ نکالنے کی وجہ سے چٹانوں کے شگاف خالی ہوجاتے ہیں اور یہی خلا سنک ہول کے بننے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دوسری طرف قحط سالی کے بعد ہونے والی تیز بارشیں زمین کی اوپری سطح پر بہت زیادہ دباؤ ڈال کر سنک ہول بننے کا سبب بنتی ہیں۔

سنک ہول کی تشکیل میں انسانی سرگرمیوں کا بھی بہت اہم کردار ہے۔ ڈرلنگ، کان کنی، کنسٹرکشن، پانی اور سیوریج کی ٹوٹے ہوئے پائپ، بھاری ٹریفک اور کھدائی کے گڑھوں کو مٹی سے ٹھیک طریقے سے نہ بھرنا بھی زمین کے دھنسنے کا اہم سبب ہے۔
پانی اور سیوریج کے ٹوٹے ہوئے پائپس سے رسنے والا پانی جذب ہوکر زیرزمین موجود مٹی اور چٹانوں کو گھُلا کر خلا پیدا کردیتا ہے۔ اور اُس جگہ پر پڑنے والا بھاری دباؤ زمین کے اندر دھنسنے کا سبب بنتا ہے۔ ایسے علاقے جہاں زیر زمین نمک کے ذخائر، چونے اور کاربونیٹ سے بنی چٹانیں ہوں وہاں سنک ہول بننے کے خطرات دیگر جگہوں کے برعکس زیادہ ہوتے ہیں۔

بورنگ کی وجہ سے سیچوریٹد (پانی سے لبریز) چٹانوں میں پانی کی مقدار کم ہوتی جاری ہے اور اس کی جگہ خلا پیدا ہو رہا ہے۔ اس کی مثال آپ اس طرح لے سکتے ہیں کہ ایک گلاس میں ریت بھر کر آپ اسے پانی سے لبریز کردیں تو ریت پانی کے بوجھ سے نیچے بیٹھ کر مضبوط بنیاد بنادیتی ہے، لیکن اگر آپ اس ریت میں سے موجود پانی نکال دیں تو اس کے درمیان خلا پیدا ہوجائے گا اور وہ بھُربھری ہوجائے گی۔ اس وقت یہی حال بورنگ کے نتیجے میں ایکوافرز کا ہورہا ہے۔

کثیر المنزلہ تعمیرات بھی کراچی کو سنک ہول کے خطرے سے دوچار کر رہی ہیں۔ ساحلی پٹی پر ہم سمندر کو پیچھے دھکیل کر، ریت سے بھرائی کرکے تعمیرات کر رہے ہیں۔ سمندر کے کسی بھی حصے کے خشک ہونے میں لاکھوں سال درکار ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ جمع ہونے والی ریت تہہ در تہہ جمع ہوتی ہے۔ ہم چند ہی مہینوں میں ریت بھر کے تعمیرات شروع کردیتے ہیں۔ اس طرح ریت پوری طرح کمپریس نہیں ہوپاتی اور اس میں چھوٹے چھوٹے خلا بن جاتے ہیں۔۔

ترقی یافتہ ممالک میں کسی ممکنہ ارضیاتی مسئلے سے بچنے کے لیے ریت بھرائی سے لے کر عمارات کی تعمیر تک کے لیے قوانین بنے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لانڈھی، کورنگی اور ڈیفنس میں آنے والے معمولی نوعیت کے زلزلے کے جھٹکے بھی ایکوافرز میں پانی کی کمی سے پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا نتیجہ ہیں۔

دنیا بھر میں زیرزمین پانی کے کم ہوتے ذخائر
دنیا بھر میں زیرزمین پانی کے ذخائر تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔ ناسا کے نئے سیٹلائٹ ڈیٹا کے مطابق دنیا بھر کے اربوں لوگوں کو تازہ پانی فراہم کرنے والے زیر زمین ایکوافرز (زیرزمین نفوذ پذیر چٹانیں جن کی تہہ میں پانی موجود ہوتا ہے) میں پانی کی مقدار خطرناک حد تک ختم ہوچکی ہے۔
بھارت سے چین اور امریکا سے فرانس تک موجود دنیا کے 37بڑے ایکوافرز میں سے 21ایکوافرز میں پانی اپنی آخری حد سے نیچے آچکا ہے۔ دس سال پر محیط اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ان 21میں سے 13ایکوافرز میں پانی انتباہی حد کو بھی عبور کرکے سب سے خطرناک درجے میں آچکے ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پانی کے یہ ذخائر بڑھتی ہوئی آبادی، زراعت اور کان کنی جیسی صنعتوں کی وجہ سے اپنی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں، کیوں کہ ان سب ضروریات کے لیے پانی کی طلب میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور انسانوں کا پانی کی بچت کرنے کے بجائے زیرزمین پانی پر انحصار دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔
ناسا کے واٹر Jay Famiglietti کا اس بابت کہنا ہے، 146146یہ صورت حال بہت پیچیدہ ہے۔ دنیا بھر کی آبادی کے استعمال کے لیے یہ ایکوافرز 35فی صد پانی فراہم کرتے ہیں، لیکن خشک سالی کی صورت میں پانی کھینچنے کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ مثال کے طور بارش کے نہ ہونے کی وجہ سے صرف کیلی فورنیا میں ایکوافرز کا 60فی صد پانی استعمال کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے دریا اور زمین کی اوپری سطح پر موجود پانی کے دیگر ذخائر (تالاب، جھیل وغیرہ) خشک ہوچکے ہیں۔
دوسری طرف انڈیا، پاکستان اور شمالی افریقا جیسے گنجان آبادی والے خطوں میں ایکوافرز کی صورت حال زیادہ خراب ہے، کیوں کہ ان خطوں میں پانی کے محدود متبادل اور قلت ان ایکوافرز کو زیادہ تیزی سے غیرمستحکم کر سکتی ہے۔145145 دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کے نتیجے میں پاکستان میں اوسط درجۂ حرارت میں خطرناک حد تک اضافہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
درجۂ حرارت میں اضافے کو روکنے کے لیے قبل از وقت اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ آنے والے سالوں کے دوران پاکستان میں قدرتی آفات کی شرح میں مزید اضافہ ہونے کے ساتھ خوراک، توانائی اور پانی کا شدید بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ میں اضافہ کے باعث اوسط درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے تاہم دیگر ملکوں کی نسبت پاکستان میں اوسط درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔