اکیس ستمبر کو کیچ علاقے آسکانی بازار میں مبینہ طور پر پاکستانی فورسز کی فائرنگ سے قتل ہونے والے عمر رسیدہ خاتون تاج بی بی کے قتل کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تاج بی بی کو دن دہاڑے سیکورٹی فورسز نے فائرنگ کرکے قتل کردیا اور اس کے ساتھ گاڑی میں سوار اس کے شوہر کو زخمی کر دیا۔
پریس کانفرنس شروع کرتے ہوئے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ آج ایک مرتبہ پھر بلوچستان میں مظلوم لوگوں پر جاری مظالم کی ایک اور دردناک و انصاف کے منتظر کہانی کے ساتھ آپ سے محو گفتگو ہیں۔ آج پھر کسی مظلوم کی آواز حکمرانوں کی کان تک پہنچانے کیلئے پریس کلب میں موجود ہیں۔ آج کی پریس کانفرنس بھی کسی مظلوم کی چیخ و پکار کی کہانی کو بیان کرنے کیلئے ہے۔ اسی امید کے ساتھ آج پھر موجود ہیں کہ بلوچستان میں جاری ان سنگین انسانی بحران اور المیہ پر کوئی تو آواز اٹھائے گا اور جبر کے اس تسلسل کو روکنے کی کوشش کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ آج کی پریس کانفرنس کے توسط سے ہم تاج بی بی کی دردناک قتل کے خلاف آپ سے مکاتب ہیں جنہیں دن دہاڑے سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کی جانب سے فائرنگ کا نشانہ بناکر قتل کیا گیا اور اس کے ساتھ گاڑی میں سوار اس کے شوہر کو زخمی کر دیا۔ ایسے ہی راہ چلتے گاڑی پر فائرنگ کرنے کا مقصد واضح اور صاف تھا کہ بلوچستان میں وہ مکمل طور پر کسی کے کنٹرول سے نکل چکے ہیں اور وہ بلوچستان میں کسی قانون، آئین انسانی اقتدار کی پرواہ نہیں کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان پچھلے دو دہائیوں سے سلگ رہا ہے۔ پہلے لاپتہ کرنے کا عمل شروع کیا گیا پھر مسخ شدہ لاشوں کا پھینکا شروع کر دیا گیا جب بات یہاں نہیں بنی تو اجتماعی قبروں میں بلوچوں کو دفنایا گیا پھر جعلی مقابلوں میں قتل کرنا شروع کر دیا گیا اور یہ تمام پالیسیاں آج بھی کسی نہ کسی صورت میں جاری ہیں اور اب ان میں ایک اور اضافہ کرکے لوگوں کو ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں تاج بی بی کا اس طرح بے رحمانہ طور پر قتل انہی مظالم کا تسلسل ہے جو عرصہ دراز سے بلوچستان میں جاری ہیں۔ تاج بی بی کو راہ چلتے ہوئے سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے فائرنگ کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بلوچستان میں انہوں نے اپنی الگ جبر پر مبنی حکومت قائم کر لی ہے جو جسے چاہئیں قتل کرے جسے چاہے لاپتہ کریں، حالیہ دنوں بلوچستان میں لاپتہ افراد کی تعداد دگنی ہو چکی ہے، آئے دن درجنوں افراد کو اٹھا کر غائب کیا جاتا ہے جس کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ بلوچستان میں ایسے حالات بنا دیے گئے ہیں جہاں ہر انسان اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتا ہے اور دوسری جانب ایسے واقعات انہیں مزید خوفزدہ کرنے کے وطیرے ہیں۔
رہنماؤں کا پریس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں تاج بی بی پہلے متاثرہ نہیں ہیں جنہیں اس طرح بےدردی سے قتل کیا گیا ہو بلکہ اس سے پہلے انگنت ایسے واقعات ہیں جس میں معصوم بچے، خواتین، نوجوان اور بزرگ اس ظلم کے دلدل میں نشانہ بن چکے ہیں۔ تاج بی بی کا اس طرح بے رحمانہ طور پر قتل اس تسلسل کا حصہ ہے۔ ہم آپ حضرات کی توسط سے پاکستان بھر سے صحافیوں، سیاست دانوں، انسانی حقوق کے اداروں، سپریم کورٹ اور حکومت وقت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کریں کیونکہ یہ صرف بلوچستان کا مسئلہ نہیں بلکہ انسانیت کا مسئلہ ہے اگر اس تسلسل کے قتل و غارت گری پر ایسے ہی چھپی اختیار کی گئی تو ایسے جرائم میں وقت کے ساتھ ساتھ مزید تیزی سے اضافہ ہوگا حالیہ واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بلوچستان میں سیکورٹی فورسز کسی کے اختیار میں نہیں اور بے اختیار ہوکر وہ اپنی مرضی اور منشاء بلوچستان پر قائم کرچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی روز اول سے بلوچستان میں جاری ان سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف اپنی آواز اٹھاتا رہا ہے جس کے کال پر بلوچستان کی عوام ان مظالم کے خلاف ہمیشہ گھروں سے نکل کر حقوق کی جدوجہد میں شریک رہی ہے۔ تاج بی بی کا قتل ایسے ہی سنگین اور دردناک ہے جس کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی بہت جلد کوئٹہ اور دیگر شہروں میں احتجاجی مظاہرہ کرے گی۔ ہم بلوچستان کے محکوم عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مظالم کے خلاف آواز اٹھائیں جدوجہد کا حصہ بنیں کیونکہ بلوچستان میں کوئی بھی محفوظ نہیں، کل حیات، کلثوم، ملک ناز اور آج تاج بی بی جبکہ آنے والے کل آپ اور ہم سے کوئی انتہائی بے دردی سے قتل کیا جائے گا۔ ہم تمام طبقہ فکر کے لوگوں سی اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس واقع کے خلاف نکلے اور احتجاجی سلسلے کا آغاز کریں۔ مظالم سے نجات کا راستہ صرف جدوجہد میں پنہاں ہے۔