بلند حوصلوں کا سربلند
تحریر:سفرخان بلوچ (آسگال)
دی بلوچستان پوسٹ
تاریخ کے اوراق کو پلٹتے وقت انسان کی ملاقات کئی بہادر سپوتوں سے ہوتا ہے جنہوں نے اپنے خون سے تاریخ لکھی ہوئی ہے جو اپنے ذاتی خوشیوں کو پس پشت ڈال کر اجتماع کے خوشیوں کے بارے میں سوچتے سوچتے اس رہتی دنیا میں امر ہوگئے ہیں۔ جو اس دنیا میں ناصرف اپنے لئے بلکہ دوسروں کے لئے آئے تھے ۔
دنیا کی شروعات سے لے کر آج تک دنیا میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ آئے اور اس دنیا سے چلے گئے، جن کے تعداد کے بارے میں آج تک سائنس بھی نہیں پہنچ پایا ہے تعداد دور کی بات سائنس اس حوالے سے بھی ابھی آخری نقطہ رکھنے میں ناکام ہوچکا ہے کہ اس زمین پہ پہلا انسان کب اور کتنے سال پہلے آچکا ہے اس حوالے سے کئی قیاس آرائیاں موجود ہیں مگر ابھی تک کوئی بھی ایک نقطہ نظر پہ متفق نہیں ہیں۔
ایک جانب اگر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ دنیا میں کتنی تعداد میں انسان آئے ہیں تو دوسری جانب ہمیں یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ اسی دنیا میں کچھ ایسے عظیم انسان آئے ہیں جنہیں آج بھی ہزاروں سال گزرنے کے باوجود بھی انسان جانتے ہیں۔ اس حوالے سے اگر ہم اسلامی نقطہ نظر سے دیکھیں تو قرآن مجید میں یہ بات ہے کہ دنیا میں کم سے کم ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے ہیں اگر اس تعداد کو دیکھا جائے تو یہ دنیا کے شروعات سے لے کر آج تک آئے ہوئے انسان کی بہت کم کی تعداد ہے۔
اس کے علاوہ اگر ہم بہت دور جانے کے بجائے ایک یا دو سو سال کے حوالے سے سوچیں اور مشاہدہ کریں تو اس دوران صرف اور صرف ہمارے سرزمین پہ کروڑوں کی تعداد میں لوگ پیدا ہوئے ان میں سے ہم کتنے کو جانتے ہیں؟
ایک یا دو سو سال کے حوالے سے ہم سوچ نہیں سکتے ہیں تو صرف پچاس سال کے بارے میں سوچیں کتنے لوگ آئے اور یہاں زندگی کی ان میں سے ہم کتنوں کو جانتے ہیں؟
دانشور اور صاحب علم کہتے ہیں کہ آدمی تو روزانہ اس دنیا میں لاکھوں کی تعداد میں پیدا ہوتے ہیں انہی لاکھوں آدمیوں میں بمشکل چند ہی انسان پیدا ہوں اور انسانوں میں بمشکل ایک انقلابی پیدا ہو، وہی انقلابی اس دنیا میں خود کے بجائے دوسروں کے لیئے آیا ہو جو اس دنیا سے جاتے جاتے ایک تاریخ لکھ کر چلتا ہے۔
اسی نوعیت کی تاریخ ساز ایک نوجوان نے اپنے فیصلے اور قربانی کی وجہ سے گذشتہ روز بلوچستان کے ساحل گوادر میں سمندر کے لہروں کی طرح نا ختم ہونے والی ایک تاریخ رقم کردی ہے۔
یقیناً اس طرح کے کم عمر نوجوانوں کے اس طرح کے فیصلوں اور کمٹمنٹ کے بارے میں ایک عام انسان سوچ نہیں سکتا ویسے بھی کہتے ہیں کہ ایک عام آدمی کی سوچ جہاں سے ختم ہوجاتا ہے اور ایک شعور یافتہ انسان کا سوچ وہاں سے شروع ہوجاتا ہے۔
انسان کو موت سے زیادہ ڈر اس وقت لگتا ہے جب اس کی عمر پچاس سال سے زیادہ ہو یا اٹھارہ سے تیس سال کے درمیان میں ہو، بوڑھے انسان کو موت سے اس لئے زیادہ ڈر لگتا ہے کیونکہ اس نے اپنے عمر میں کئی ایسی چیزیں دیکھی ہیں یا اس سے کئی ایسی یادیں بندھی ہیں جو انہیں کھونا نہیں چاہتا جبکہ نوجوان کو اس لئے ڈر لگتا ہے کہ کیونکہ اسے مزید نوجوانی کی سیڑھی پہ چڑھ کر اس دنیا کو مزید دیکھنا ہے۔
کہتے ہیں کہ سولہ اور اٹھارہ سال کے درمیان میں خاص کر نوجوانوں کی سوچ ایک اور جانب جانے لگتا ہے کیونکہ اس وقت انسان جینیٹکلی ایکٹیو ہوجاتا ہے اور وہ صرف ایک جانب سوچنے لگتا ہے۔
اسی عمر میں جب انسان بلوچ نوجوانوں کے فیصلوں اور شعور کی انتہا کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے، چاہے وہ شہید ریحان کا فیصلہ ہو یا شہید سربلند کا، یقینا یہ شعور کی وہ انتہا ہے جو مسکراتے موت کو بھی گلے لگاتے ہیں جنکو ناہی آخرت میں جنت اور ستر حوروں کی خواہش ہے جس کے بارے میں عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا اور تاریخ ساز انسان ایسے ہی ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ اس طرح کے شعوری فیصلوں اور تاریخ ساز کاموں کے بعد نیم حکیم والے صاحب علم یہ بولتے ہیں کہ اس کاروائی میں کتنے لوگ مرے ہیں بات یہ نہیں کہ کتنے کہ لوگ مرے ہیں فیصلہ اور اپنے ہدف تک پہنچ کر اپنے کام کو سرانجام دینا ان جیسے کاموں کی سب سے بڑی کامیابی ہے یقین مانیں اگر سربلند کے فدائی حملے میں دو سو چائینیز مرتے تو وہ بھی اس کے ایک مسکراہٹ کے بدلے میں کم تھے مگر اس کے زمین سے محبت اور دو طاقتوں کی رٹ کو ہلا کر رکھ دینا اس کی کامیابی ہے۔
گوادر اور سی پیک پہ کام کرنے والے چائینیز کے سیکورٹی میں تعینات فوج کے دو ڈویژن کو شکست دے کر جس طرح سربلند نے اپنے فیصلے اور کامیاب حکمت عملی سے چین اور پاکستان جیسے طاقتوں کی نیندیں حرام کی ہوئی ہے اور انہیں شکست سے دوچار کیا یہی تو اس کی کامیابی ہے۔
سربلند خود ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس دنیا میں امر ہوگیا ہے اور اپنے حصے کی قربانی دے کر اپنے کام کو مکمل کرکے چلا گیا اور اب ہمیں اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہیں۔
دنیا میں جب تک فیدرل کاسترو، لینن، بھگت سنگھ، نیلسن منڈیلا اور امرالکبیر کا نام یاد رکھا جائیگا تو سربلند کا بھی اس وقت نام یاد رکھا جائیگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں