انیتا جلیل کا دیس اور ہے،میرا دیس اور – محمد خان داؤد

264

انیتا جلیل کا دیس اور ہے،میرا دیس اور

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

اس دن چائینا کمیونسٹ پارٹی ایک سو سال کی ہورہی تھی، کافر تو کیا مومن بھی اس نظام کے حق میں باہر آگئے تھے جو سیا سی نظام اس وقت چائینا میں رائج ہے،وہ نظام کیا ہے اس نظام کو سمجھنے کے لیے ہمیں استاد محترم شاہ محمد مری کی کتاب”چین آشنائی“ پڑھنی پڑے گی،کمیونسٹ پارٹی آف چائینا ایک سو سال کی ہو گئی چائینا سمیت پو رے پاکستان میں اس کی خوشی منائی جا رہی تھی اور گوادر میں عمران خان،جام کمال کے باجو میں بیٹھے ہوئے تھے،اور مائیک پر انتیا جلیل گوادر کا گیت گا رہی تھی
”گوادر نے بہت ترقی کی ہے،میری آنکھوں کے سامنے کی ہے،گوادر بہت آگے نکل گیا ہے اور مزید بھی آگے نکلے گا“
جب کہ ہم جانتے ہیں گوادر اگر آگے نکل گیا ہے تو محبت کی سر زمیں بہت پیچھے رہ گئی ہے۔

حالانکہ ہمیں گوادر اور بلوچستان کا مرثیہ لکھنا چاہیے،نوحہ لکھنا چاہیے جب دھرتی پر پھول کھلیں تو ہم دھرتی کے گیت بھی لکھیں گے، جب سفید برف کے گالوں کے نیچے سے سرخ پھول کھل اُٹھیں گے تو ہم دھرتی بلوچستان کے واسطے گیت لکھیں گے،پر اس وقت تو دھرتی بلوچستان لاشیں اُگلتی ہے اور سفید برف کے گالے والے پہاڑ سرخ ہو جا تے ہیں تو،گوادر آہنی زنجیروں میں جکڑا جا رہا ہے تو ہم انتیا جلیل کی طرح گوادر کے گیت کیسے گا سکتے ہیں؟
ہم تو دھرتی کے نوحہ خواں ہیں
ہم تو دھرتی کے مرثیہ خواں
ہم نوحہ اور مرثیہ ہی لکھیں گے
اور ہم لکھیں گے
”انیتا جلیل کی دھرتی اور ہے،اور میری دھرتی اور۔۔۔
انیتا جلیل کی دھرتی میں وہ برف کے گالوں سے کھیلتی ہے
جب کہ میری دھرتی پہ ماں حیات کے قتل کے بعد خدا کو تلاشتی ہے
انیتا کی دھرتی پر وافر مقدار میں خوار میسر ہے۔گھر ہیں،اچھے کپڑے اور جو تے ہیں دوائیاں ہیں
جب کہ میری دھرتی پہ خوراک کا قحط ہے،گھروں کو جلا دیا جاتا ہے،بدن پر کپڑے تار تار ہیں،سخت سردی اور تپتی دھوپ میں پیر ننگے ہیں۔ماؤں کی آنکھوں میں حسرتیں پلتیں ہیں کہ کاش اس دھرتی پہ کوئی اسپتال ہوتا اور ان کا بچہ یوں نہ مر جاتا!
انیتا جلیل کی دھرتی پہ ہوائی جہاز کے ٹکٹ ہیں،اچھی سواریاں ہیں اور شاندار ہوٹل ہیں
میری دھرتی کی ماؤں کی زندگی اور میری دھرتی کی بیٹیوں کی پو ری حیات سفر در سفر ہے،وہ مسافر بنی ہوئی ہیں،وہ سسئی بنی ہوئی ہیں۔جیسے سسئی کو کوئی سواری میسر نہ تھی ویسے ہی میری دھرتی کی ماؤں اور بچیوں کو کوئی سواری میسر نہیں،ان کے دکھی،زخمی پیر اور ان کی پھٹی پرانی جوتیاں شاہد ہیں کہ ان کی زندگیاں کیسے سفروں میں تمام ہوئی ہیں۔ان کے پاس ہوائی ٹکٹ کیا ان کے پاس تو وہ اونٹ بھی نہیں جن اونٹوں کو دیکھ کر پہلے سسئی نے بد دعا دی کہ یہ میرے پنہوں کو لے گئے اور پھر خود ہی کہا
”اے سسئی ہوش کر ان اونٹوں نے تمہا رے محبوب کو سفر کی اذیت سے بچایا!“
میری دھرتی کی مسافر مائیں شاندار ہوٹلوں کی رونقوں سے بے خبر ہیں
وہ انیتا جلیل نہیں
وہ تو مسافر مائیں اور مسافر بہنیں اور مسافر بیٹیاں ہیں
جن کے ہونٹوں پر آج سے نہیں پر عرصہ دراز سے یہ صدا ہے کہ
”کملی کر کے چھڈ گئے او
پئی کھک گلیاں تاں رولاں!“
انیتا کی دھرتی اور ہے
سمی اور مہلب کی دھرتی اور ہے
حسیبہ کی دھرتی اور ہے
فرزانہ کی دھرتی اور ہے
روتی ماؤں،چیختی بہنوں اور ماتم کرتی بچیوں کی دھرتی ہے
انیتا جلیل کی دھرتی پر پھول کھلتے ہیں۔بہاروں کا ڈیرہ ہے اور سفید برف کی خوشیاں ہیں
پرمیری معصوم ماؤں کی دھرتی پر ایک ہی معصوم ٹھہر سا گیا ہے
اور وہ ہے درد کا موسم۔میری معصوم بہنوں کی دھرتی پر تو چاند بھی ماتمی لباس پہنے طلوع ہوتا ہے
انیتا جلیل کی دھرتی پر کوئی بیمار ہوتا ہے تو اسے فوراً ایمبولینس میں اسپتال پہنچا کر طبعی امداد دی جا تی ہے
جب کہ میری اداس ماؤں کی دھرتی پر جب ان کا معصوم بچہ کسی معوذی مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے اور پھر نہ تو سواری ہو تی ہے اور نہ اسپتال جب وہ مائیں جگ سوئے اپنے معصوم بچے اپنے کاندھوں پر لادھے پہاڑوں کے درمیاں سفر کرتی ہیں تو پہاڑ دل کھول کر ان ماؤں کے ساتھ رو تے ہیں
”ڈونگر موسین روئے
کڈھی پار پنہوں جا!“
وہ پہاڑ جانتے ہیں وہ بات جو معصوم مائیں نہیں جنتی،وہ پہاڑ جانتے ہیں کہ مائیں جا تو رہی ہیں بار سے اپنے کاندھوں پر رکھے اپنے بیٹوں کو پر جب وہ لوٹیں گے تو اکیلی ہوں گی،جب وہ لوٹیں گیں تو ان کے پلوں آنسوؤں سے گیلے ہوں گے،جب یہ لوٹیں گے تو یہ اتنا رو چکی ہونگی کہ جتنی تو ہم پر بارش بھی نہیں برستی،تو جب وہ مائیں اپنے بیمار بچوں کو لیے پہاڑوں کے دامنوں سے گزرتی ہیں
تو پہاڑ رو تے ہیں
انیتا جلیل کے دیس کے پہاڑوں کو کوہ پیما سر کرتے ہیں
جب کہ میرے دیس کو غمگین مائیں سر کرتی ہیں
انیتا جلیل کی دھرتی اور ہے اور میری دھرتی اور۔۔۔۔
انیتا بس ایک بار ان ماؤں کو دیکھ لے جو جینے کی سزا میں جی رہی ہیں جو پہاڑوں کے دامنوں میں بستی ہیں جنہیں سورج طلوع ہو تے سلام کرتا ہے اور چاند ان ماؤں کے پیروں میں بچھ جاتا ہے
تو انیتا کے ہاتھوں سے وہ موبائل فون گر جائے جس سے وہ ولاگ بنا کر ہمیں بتا تی ہے کہ
“ایسا دیس ہے میرا!“
میں انیتا کو وہ ماں دکھانا چاہتا ہوں جو حیات کے قتل کے بعد اب تک مسلسل خدا کو تلاش رہی ہے اور میں انیتا جلیل کو بتانا چاہتا ہوں کہ ایسا دیس ہے میرا!
میں انیتا سے ان دکھوں کی تو بات ہی نہیں کر رہا جو میرے دیس میں جا بجا بکھرے پڑے ہیں
میں تو بس ان دکھوں کی بات کر رہا ہوں
جو دامن سے آکے لگے اور اب چھوٹنے کی بات ہی نہیں کرتے
گوادر!
گوادر کو نوحہ مرثیہ تو الگ ہے وہ کسی اور جگہ کہیں اور۔۔۔۔
انیتا جلیل کے دیس میں بھلے گر دیو ٹیگور کی دعائیں آلاپی جاتی ہوں
پر میرے دیس میں تو نوحہ پڑھے جا تے ہیں،مسافروں ماؤں کے دردوں پر مقتول بیٹوں کی قبروں پر
سن رہی ہو انیتا؟
”یہ گھناؤنی گھڑی
آگ آگ آسماں
چیختی ہے مورنی
مینہ برس
مینہ برس
مینہ برس
رول مت نراس میں
آ،کہیں کھلی زباں
بے زباں،پیاس میں
مینہ برس
مینہ برس
مینہ برس
ہانپتے ملیر میں
ٹھور ٹھور ہے الاؤ
آگ ہر سریر میں
مینہ برس
مینہ برس
مینہ برس
آؤ بجلیو،گھٹاؤ
اب نہ سہہ سکیں کے تاؤ
آؤ۔آؤ۔آؤ۔آؤ
مینہ برس
مینہ برس
مینہ برس“
سن رہی ہو نہ انیتا؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں