میرا بوسہ تمہیں رنگوں سے بھر دے گا – محمد خان داؤد

227

میرا بوسہ تمہیں رنگوں سے بھر دے گا

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

مجھے معلوم ہے سفید گلابی گالوں پر دیا بوسہ رحم تک نہیں جاتا
اور تاریخ میں آج تک کوئی محبوبہ کسی عاشق کے بوسہ سے حاملہ نہیں ہوئی۔

اگر کوئی محبوبہ کسی عاشق کے بوسہ سے حاملہ ہو تی تو ”کینسر وارڈ“کے الیکسگینڈرجو اپنی محبوبہ کو اپنی بانہوں میں لیے اسے بس ایک بوسہ دینے کو بے قرار تھا جب محبوبہ اس کے قریب آئی تو الیکسگینڈر نے یہ کہہ کر اپنی محبوبہ کو بوسہ دینے سے انکار کر دیا کہ
”کیا میرا بوسہ تمہا رے رحم تک جا سکتا ہے؟
کیا تم میرے بوسہ سے حاملہ ہو سکتی ہو؟
کیا تم میرا بوسہ لینے کے بعد تم میرے لیے تمہا رے جیسی خوبصورت بیٹی پیدا کر سکتی ہو؟
اگر نہیں!
تو میں ان کنوارے سفید گالوں
گلابی لبوں کا کنوارہ پن ختم نہیں کر سکتا“

ہاں میرا بوسہ بھی رحم تک نہیں جا سکتا۔تم بھی میرے بوسہ سے حاملہ نہیں ہو سکتی۔تم بھی میرے بوسہ سے ماں نہیں بن سکتی۔میرے بوسہ سے تم میرے لیے اپنے جیسی خوبصورت بیٹی پیدا نہیں کر سکتی۔
تمہیں معلوم ہے کہ دو دستوں کے درمیاں سب سے اچھا تحفہ کون سا ہے؟
جو وہ ایک دوسرے کو دیں اور اس سے بڑھ کر کوئی اور تحفہ نہ ہو!
وہ عظیم تحفہ ہو
وہ شاندار تحفہ ہو
وہ محبت سے لبریز تحفہ ہو
جس تحفہ میں جان اٹکی ہو
جس تحفہ کے کھو جانے کا کھٹکا لگا ہو
وہ تغفہ جانِ عزیز ہو
ارض و سماء کے بیچ میں جو کچھ ہے
وہ سب اس کے سامنے ہیچ ہو
وہ تحفہ کی معراج ہو

خوشونت سنگھ بھا رت کے بہت بڑے صحافی دانشور،سیاست کار،سفارت کار،تھے وہ شروعاتی ایام میں بھارت میں گائیڈ اور مترجم کا کام بھی کیا کرتے تھے انہی دنوں ایک گوری بھا رت دیکھنے آئی اور سرکا ر نے خوشونت سنگھ کی ڈیوٹی اس کے ساتھ لگا دی،اس وقت خوشونت سنگھ 45سال کے تھے اور وہ گوری 17سال کی۔خوشونت سنگھ دن چڑھے اس گوری کو بھا رت دکھاتے اور شام کو واپسی پر اسے بہت سے تحائف خرید کر دیتے۔ وہ گوری خوبصورت لڑکی کبھی خوشونت سنگھ سے تحائف لیتی کبھی اسے جھڑدیتی۔اس آفیشل ٹوئر میں بس ایک دو دن باقی تھے۔ایک دن خوشونت سنگھ اس گوری لڑکی کو گھما تے پھراتے کسی درزی کے پاس لے گئے درزی کے پاس بہت سے کپڑوں کے تھان تھے گو ری لڑکی کو کپڑا دکھایا گیا جو کپڑا لڑکی نے پسند کیا اس کپڑے کا قمیض شلوار بنا کر اس لڑکی کو دیا گیا۔خوشونت سنگھ نے لڑکی سے کہا بس کل آخری دن ہے میں چاہتا ہوں تم کل یہ پہن کر آؤ۔
جب کل وہ لڑکی پہن کر آئی تو خوشنوت سنگھ کو ایسا محسوس ہوا کہ یہ دھرتی پورا مندر بن گئی ہے اور یہ لڑکی اس مندر کی مورتی!
حسین مورتی
خوبصورت مورتی!
جب سرکا ری ٹوئر کا آخری سورج بھی ڈوب گیا اور وہ لڑکی خوشونت سنگھ سے دور ہو رہی تھی تو اتنے دنوں کی ہر روز کی ملاقات اور تعائف کے دینے سے اس لڑکی کو بھی خوشونت سنگھ سے محبت ہو گئی
حالاں کے دونوں کی عمروں کے دوراں کافی لکیر تھی۔
جاتے جا تے لڑکی نے خوشونت سنگھ سے پوچھا
”میں تمہیں کیا تحفہ دوں؟“
خوشونت سنگھ نے کہا
”تمہارے جیسی خوبصورت لڑکی!“
لڑکی”نہیں!
تم مجھے چوم سکتے ہو
میرا بوسہ لے سکتے ہو“
خوشونت سنگھ”نہیں
بوسہ رحم تک نہیں جاتا
اور تم حاملہ نہیں ہو سکتی!“
لڑکی خوشونت سنگھ کی بہانوں میں آئی اور دونوں رات گئے تک محبت کی مزدوری میں پسینہ پسینہ ہو تے رہے ہو بہ ہو ایسے جس کے لیے جون نے فرمایا تھا کہ
”یہ جو پھولوں پہ شبنم ہے
یہ رات میں کی گئی محبت کا پسینہ ہے!“
پر سنو یہ کتھا تمہیں اس لیے سنا رہا ہوں کہ میں جانتا ہوں کہ میرا بوسہ بھی تمہا رے رحم تک نہیں جا سکتا۔تم بھی حاملہ نہیں ہو سکتی۔تم بھی مجھے اپنے جیسی خوبصورت بیٹی نہیں دے سکتی
پر سنو!
تم میرے قریب آؤ۔میں تمہا رے سفید گالوں کا روزہ توڑوں۔تمہا رے گلابی گالوں کا کنوارہ پن ختم کروں،تمہا رے گورے گلے میں پڑی مصلوب یسوع کی صلیب سیدھی کرتا پھروں۔پاس آؤ کہ دیکھ پاؤں سفید پستانوں پر پسینہ کیسے گرتا ہے،گرتا ہے یا خدا سے دعا کرتا ہے کہ وہ وہیں پر منجمند ہو جائے۔پاس آؤ کہ دیکھ پاؤں کہ دل گو رے پستانوں کے حرم میں کیسے آباد ہے؟
پاس آؤ کہ جاگتی آنکھوں سے دیکھ پاؤں کہ سفید پستانوں کی دنیا کیسی ہے
جس دنیا کو لطیف سے لیکر غالب نے گایا ہے
پاس آؤ کہ تمہا رے پسینے کی خوشبو کو اپنے اندر سمو لوں!
پاس آؤ کہ دیکھ پاؤں کہ عدن سے نکلنے میں قصور تمہارا تھا یا میرا؟
ہاں!پاس آؤ جامی کی اس بات کو بھی سمجھ پاؤں کہ
”جب محبوبہ کے رقسار چومیں
تو ہونٹ گلابی گلابی ہو گئے
گھر میں ماں پوچھے گی کیا ہوا ہے؟
کہوں گا
”امی!انار کھایا ہے!“
سنو!
خوبصورتی کچھ نہیں ہو تی
بس جوانی کی اپنی خوبصورتی ہو تی ہے
اور تم ابھی جوان ہو
تو خوبصورت ہو
کیا تم ہمیشہ ایسی خوبصورت رہو گی؟
اگر ایسا نہیں تو جوان عورتیں بوڑھاپے سے کیوں ڈرتی ہیں؟
ہاں میں کینسر وارڈ کا الیکسگینڈر نہیں کہ بوسہ سے منع کروں
میں جانتا ہوں بوسہ رحم تک نہیں جاتا
اور میں خوشونت سنگھ بھی نہیں کی میں تم سے کہوں کہ مجھے تمہا رے جیسی خوبصورت لڑکی چاہیے
مجھے بس ایک بوسہ چاہیے
تمہا رے بدن کا
تمہا رے گو رے گالوں کا
تمہا رے گلابی ہونٹوں کا
تمہا رے کنوارے سفید سفید پساتون کا
میں تمہا رے پستان ایسے پینا چاہتا ہوں جیسے بھوکے بچے ماؤں کے دودھ سے بھرے پستان پیتے ہیں
ہاں میرے بوسہ سے تم حاملہ نہیں ہوگی
پر یقین جانو
تمہارا جسم رنگوں سے بھر جائیگا اور تمہیں خدا پر یقین ہونے لگے گا
جیسے کازانت زاکس نے لکھا تھا کہ
”مجھ سے کسی نے پوچھا کی خدا ہے
تو بادام کے درخت پر پھول کھل اُٹھے!“
پاس آؤ تمہیں بوسہ دوں
اور تمہیں رنگوں سے بھر دوں


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں