ان ماؤں،بہنوں،بیٹیوں کا کون سا دیس ہے؟ – محمد خان داؤد

150

ان ماؤں،بہنوں،بیٹیوں کا کون سا دیس ہے؟

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

گارشیا مارکیز سے انٹرویو میں کسی صحافی نے پوچھا آپ کے دیس کا نام کیا ہے؟
توگارشیا مارکیز نے جواب دیا
”میں اس دیس میں رہتا ہوں
جہاں چرچ میں دعا کے لیے کنزر ویٹوصبح آٹھ بجے آتے ہیں
اور لبرل شام پانج بجے“
پر یہی سوال اگر پاکستان کے شہریوں سے پوچھا جائے تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس کا ایساجواب دیں کہ
جہاں عالم لوہار کی جُگنی گائی جا تی ہے اور عارف لوہار کی دم گھٹکوں سنا جاتا ہے
پر اگر یہی سوال ان بہنوں،ماؤں اور بیٹیوں سے پوچھا جائے جو جا تی سردی میں اسلام آباد کی سڑکوں پر اپنے پیاروں کی تلاش میں رُل رہی ہیں۔جن کے ہاتھوں میں اپنے باباؤں،بھائیوں،بیٹوں کی تصاویر ہیں وہ کیا جواب دیں گی؟

کیونکہ لوہار اور عارف لوہار کے دیس کے لوگ تو اس دیس کو جانتے ہی نہیں جس دیس کے بارے میں اگر چلتے چلتے کسی مارکیٹ یا تعلیمی اداروں میں کسی سے پوچھا جائے کہ بلوچستان کہاں ہے؟یا اس میں کتنے شہر ہیں؟یا ان شہروں کے نام کیا ہیں؟تو عالم لوہار اور عارف لوہار کے دیس کے باسیوں کے ہونٹ سِل جا تے ہیں وہ اس دیس کے بارے میں اتنا بھی نہیں جانتے جتنا عالم اور عارف لوہار کے دیس کے بارے میں وہ سیما بلوچ جانتی ہے جس کے گم شدہ بھائی کا نام شبیر بلوچ ہے اور وہ سیما اب کراچی کی گلیوں کے نام بھی بتا سکتی ہے اور اسلام آباد کی شہراؤں کے اب وہ شاہرائے دستور سے بھی واقف ہے اور وہ یہ بھی جانتی ہے کہ ڈی چوک کہاں ہے؟

پر لیہ،گجراوالا،پنڈی،سیالکوٹ،گجرات،لاہور،ملتان والے یہ نہیں جانتے کہ آواران کہاں ہے؟ژوب کہاں ہے؟شال کہاں ہے؟قلعہ عبداللہ کہا ں ہے؟قعلہ سیف اللہ کہاں ہے؟تربت کہاں ہے؟گوادر کہاں ہے؟ڈیرہ مراد جمالی کہاں ہے؟پسنی کہاں ہے؟اورماڑہ کہاں ہے؟
وہ کچھ نہیں جانتے اور وہ یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے وہ اس دیس میں خوش ہیں جس دیس کے لیے گارشیا مارکیز نے کہا تھا کہ
”میں اس دیس میں رہتا ہوں
جہاں چرچ میں دعا کے لیے کنزر ویٹوصبح آٹھ بجے آتے ہیں
اور لبرل شام پانج بجے!“
وہ اپنے دیس میں خوش ہیں پر وہ بہت ہی نا خوش ہیں جو اس دیس سے چلی ہیں جس دیس میں اداس کجھیاں اپنے سر بلند کر کے ان بیٹیوں کو دیکھنے کی کوشش کرتی ہیں کہ جو یہاں سے اپنے ہاتھوں میں اپنے پیاروں کی تصاویر لیے چلی تھیں وہ کب اس دیس میں واپس لوٹے گیں
جہاں کے بلند پہاڑ اس لیے جھک گئے ہیں کہ ان پہاڑوں پر وہ پیر ہی نہیں پڑتے
جو پیر اپنے اپنے سے تھے جو پیر دیس کے بیٹوں کے تھے
جہاں کے چشمے بہہ رہے ہیں پر قریب جانے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ سوکھ رہے ہیں
جہاں کی برف برستی ہے تو وہ قبریں ڈھک جا تی ہیں جو نامعلوم نامعلوم کی قبروں کی ہیں
جہاں کے ادیب اب رومانسی تحریریں نہیں لکھتے
پر ایسے گیت لکھتے ہیں جنہیں پڑھ کر سن کر آنکھیں بھیگ جا تی ہیں
جہاں کی ماؤں کے گھر بہت پیچھے رہ گئے اب وہ گھر ان ماؤں کو یاد کر کے گیلے گیلے رہتے ہیں
جہاں کی بارشیں ان نشانوں کو ظاہر کردیتی ہیں جو پیر کے نشان تھے
جو اب تلاشتے بھی نہیں ملتے!
بھلے گارشیا مارکیز اپنے دیس کے لیے ایسا جواب دے کہ
”میں اس دیس میں رہتا ہوں
جہاں چرچ میں دعا کے لیے کنزر ویٹوصبح آٹھ بجے آتے ہیں
اور لبرل شام پانج بجے!“
اور بھلے پنجاب کے باسی عالم لوہار کی جگنی اور عارف لوہار کی دھم گھٹکوں کے ساتھ ایسا بھی جواب دیں کہ
جہاں وارث شاہ کی ہیر پڑھی اور سنی جا تی ہے جہاں فرید کی کافیاں پڑھی اور سنی جا تی ہیں جہاں بلھے شاہ کی چوکھٹ کی سلامی دی جا تی ہے!
پر وہ بیٹیاں،مائیں،بہنیں کیا جواب دیں
جو اس وقت اسلام آباد میں اس وزیر اعظم کی راہ تک رہی ہیں جو وزیر اعظم ٹی وی پروگراموں میں ایسا بھاشن دیا کرتے تھے کہ ”میں شیخ رشید کو اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوں!“
آج وہ چپڑاسی کس وزارت پر برجمان ہے!
جہاں پر وزیر اعظم کے وزیر فواد چوہدری ایسا ٹوئیٹ کرے کہ
”آپ تو بلوچستان میں پنجابیوں کے کارڈ دیکھ کر ان کو گولیاں مار رہے ہیں
ہم یہاں بلوچ خواتینوں کو احتجاج کرنے دے رہے ہیں
انہیں گولیاں تو نہیں مار رہے!“
وہ بیٹیاں کیا جواب دیں؟
وہ مائیں کس کو کیا بتائیں کہ وہ کہاں سے آئی ہیں؟
وہ بہنیں کیا کہیں کہ وہ کیسے مسافر بنی؟
وہ کس سے کہیں کہ انہیں کس نے مسافر بنایا؟
وہ مائیں اور بیٹیاں اسلام آباد والوں کو گارشیا مارکیز جیسا جواب تو نہیں دے سکتیں!
پر وہ ایسا جواب تو دے سکتیں ہیں کہ
جہاں پر اداس اور خالی کچے مکان ہیں
جہاں کی مائیں،بہنیں،بیٹیاں بن منزل کے مسافر بنی ہیں
جہاں دہشت ہے
جہاں دہشت میں اداس قبریں ہیں
جن قبروں پر کوئی کتبہ نہیں
جن قبروں پر کوئی نام نہیں
جن قبروں پر بس نمبر درج ہیں!
جہاں کے ججز بلوچ بیٹیوں کو نازیبا الفاظ بکتے ہیں
جہاں پر دیس کا کمال وزیر ہے
پر دیس کو زوال ہے
جہاں بیٹیاں بن باباؤں کے جوان ہو جا تی ہیں
وہ اداس مائیں ہیں
روتی بیٹیاں ہیں
وہ رو سکتی ہیں
ماتم کر سکتی ہیں
پر وہ گارشیا مارکیز نہیں
اور وہ کسی صحافی کے پوچھنے پر ایسا جواب بھی نہیں دے سکتیں کہ
”میں اس دیس میں رہتا ہوں
جہاں چرچ میں دعا کے لیے کنزر ویٹوصبح آٹھ بجے آتے ہیں
اور لبرل شام پانج بجے!“


بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں