گوادر کے گرد باڑ کیوں؟
تحریر: ذوالفقار علی زلفی | اردو ترجمہ: ریاض بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ہمارے ایک لکھاری نے سوال اٹھایا “گوادر کے گرد لگنے والے باڑ کو روکا جاسکتا ہے؟ ” پھر خود جواب دے دیا کہ “نہیں روکا جاسکتا اور بلوچ اس کو روک بھی نہیں سکتے” ـ اس دوست کے مطابق ؛ وجہ یہ ہے کہ بلوچوں میں اتحاد نہیں ہے ـ آگے جا کر جناب ہمیں بتاتے ہیں کہ “مسلح غیر مسلح تنظیمیں ایک دوسرے کو قوم دشمن گردانتے ہیں ، بلوچ منتشر ہیں اور ان میں اتحاد کا فقدان ہے ـ دوست کے مطابق ہم سے سندھی بہتر ہیں جو اپنے جزائر بچا گئے ـ آخر میں لکھاری اس اعلان پہ بات ختم کرتے ہیں کہ “بلوچ سو رہے ہیں”ـ
میری رائے میں دوست کے فکری ڈھانچے کی بنیاد کمزور ہے ـ اگر کسی کی بنیاد کمزور ہو تو اس کا پورا مقدمہ دم توڑ جاتا ہے ـ یہی کچھ میرے قابل دوست کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ ـ
سوال یہ نہیں ہے کہ گوادر کے گرد لگنے والی باڑ کو روکا جاسکتا ہے یا نہیں بلکہ درست سوال یہ ہے کہ گوادر کے گرد باڑ کیوں لگایا جارہا ہے؟ ـ
پاکستان پہلے کہتا تھا کہ “بلوچستان کا مسئلہ صرف تین سرداروں کا مسئلہ ہے ـ وہ سمجھتے تھے کہ ہم ان سرداروں کو ڈرائیں گے یا ماریں گے تو مسئلہ حل ہوجائے گا،ـ انہوں نے نواب اکبر خان بگٹی کو شہید کیا، سردار عطاء اللہ مینگل کے گھر کا گھیراؤ کرکے ان کو گھر تک محدود کرنے کی کوشش کی اور ان کے خلاف جرائم پیشہ عناصر کو کھڑا کرنے کی کوشش کی ـ نواب خیر بخش مری کو ہرانے اور جھکانے کیلئے محبت خان مری جیسے کارٹون تخلیق کیے گئے لیکن ریاست کامیاب نہ ہو سکی ۔ـ
پھر جنرل کیانی نے بلوچستان کے مسئلے کو صرف دو تین اضلاع کا شورش قرار دیا ـ یہاں بھی وہ ناکام رہے ـ پھر انہوں نے پروپیگنڈہ کیا یہ مٹھی بھر لوگ ہیں انکو ہم ٹھیک کردیں گے ـ۔
ہزاروں لوگوں کو بالجبر اٹھا کر غائب کر دیا گیا، سینکڑوں کو مار کر پھینک دیا ـ قلمکار، ادیب، سیاسی ورکرز الغرض جو بھی انکے ہاتھ لگا وہ واپس نہیں آیا اگر ایک آدھ زندہ لوٹا تو وہ بھی نیم مردہ حالت میں ـ
پاکستان نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ـ ہمیں ہمیشہ یہ بتایا گیا کہ بلوچ انسرجنسی اب ختم ہو گی کہ اب ہوگی ، بلوچ جدوجہد اب بس ختم ہونے کے دھانے پر ہے یا ایسا ہے ، ویسا ہے ـ۔
اب آئے ہیں گوادر کے گرد باڑ لگانے ـ کسی زمین کو باڑ لگانا defensive position کے زمرے میں آتا ہے ـ
دفاعی پوزیشن نا صرف ناکامی کا اعلان ہے بلکہ خوف کی بھی علامت ہے ـ اپنے گرد حصار بنانا خود کو بچانے کا آخری حربہ ہے ـ جب قبضہ گیر حملہ آور اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ میں اپنے دشمن کو ہرا نہیں پاؤں گا تو اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ خود کو محفوظ رکھ سکے ـ پاکستان اب اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ بلوچ کو روکنا تو نا ممکن ہے بہتر ہوگا وہ خود کو قلعہ بند کرلے ـ۔
اگر بلوچ قوم سو رہی ہوتی اور بلوچ جہد کار کاہل ہوتے تو ایک ایٹمی طاقت کیا خود کو قلعہ بند کرتی؟ یہ گوادر کو نہیں بلکہ خود کو باڑ میں بند کر رہے ہیں ـ طالبان ان کے اوپر بد ترین حملے کر چکے ہیں، وہ جی ایچ تک پہنچ گئے لیکن کیا کبھی انہوں نے اسلام آباد میں باڑ لگایا؟
پاکستانی پالیسی سازوں کو امید تھی کہ طالبان کا کوئی نا کوئی حل ضرور نکلے گا اور حل نکل بھی گیا ـ بلوچستان سے یہ کاملاً نا امید ہو چکے ہیں ـ نواب مگسی، نواب زھری، نواب رئيسانی ، سردار رند، ارب پتی مڈل کلاس اور ڈیتھ اسکواڈ سب کو آزمانے کے بعد اب معاملہ اپنے اور اپنے اثاثوں کے گرد باڑ لگانے تک آگیا ہے ـ۔
ہو سکتا ہے کہ بلوچ فوراً اس باڑ کو اکھاڑ نا سکیں ـ یہ پریشانی کی بات نہیں ہے ـ دنیا تک بات پہنچ چکی ہے کہ یہ کتنے خوفزدہ ہوچکے ہیں گر آج نہیں تو کل بلوچ ان کے تمام حفاظتی حصار توڑ دیں گے ـ۔
بلوچ لکھاریوں کو قوم میں بد دلی اور مایوسی پیدا کرنے سے احتراز برتنا چاہیے ـ یہ قوم کم از کم سندھیوں سے تو بالکل کمزور نہیں ہے ـ یہ ارب پتی مڈل کلاس نام نہاد قوم پرست اور سردار کب تحریک کے ساتھ تھے اب ہوں گے؟ کل بھی ھمل جیئند کے ہمراہ عام بلوچ تھے اور آج بھی ھمل کے ساتھی وہی آبلہ پا بلوچ ہیں ـ اپنے نیلے سمندر کا دفاع بلوچ اچھی طرح سے جانتے ہیں ـ۔
قوم مایوس کرنے کی کوشش ترک ہونی چاہیے ـ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔