اٹھارویں ترمیم کی اہمیت و ضرورت پر کوئٹہ پریس کلب میں سیمینار

311

بلوچستان کے مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین کا خطاب

بلوچستان کے مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین نے کہا ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے لئے تمام جمہوریت پسند جماعتوں، قوتوں اور سیاسی کارکنوں کو کردار ادا کرنا چاہے، صوبوں کے مضبوط ہونے سے فیڈریشن مضبوط ہوگی، حقیقی فیڈریشن کے لئے سینیٹ کو اختیارات دیئے جائیں۔

ملک میں نیشن ایک نصاب کا نعرہ لگایا جارہا ہے جو آئین کے خلاف ہے صوبوں کو اختیار ہے کہ وہ اپنا نصاب خود بنائیں۔ عوام کی بالادستی چاہتے ہیں قومی مفادات کسی دوسرے ملک کے مفادات کے لئے لڑنا نہیں ہے۔

ان خیالات کا اظہار سابق وزیراعلیٰ و نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، بی این پی کے مرکزی جنرل سیکرٹری و سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، پشتونخوامیپ کے صوبائی صدر و سینیٹر عثمان کاکڑ، جمعیت علماء اسلام کے مرکزی ترجمان حافظ حسین احمد، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین و صوبائی مشیر کھیل عبدالخالق ہزارہ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے کوئٹہ پریس کلب کی گولڈن جوبلی تقریبات کی مناسبت سے ”18ویں ترمیم کی اہمیت اور ضرورت‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

اس موقع پر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان و نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم پر کسی صورت بھی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے لئے تمام جمہوری پسند جماعتوں، قوتوں اور سیاسی کارکنوں کو کردار ادا کرنا چاہے۔

انہوں نے کہا کہ محمد علی جناح کی وفات کے بعد ملک کے جاگیرداروں، سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے سازشیں کرکے ملک کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا جو قائد اعظم کے نظریاتی کیخلاف تھا۔ ملک بننے کے بعد 1956 میں پہلا آئین بنا اس سے قبل 9 سال تک انڈین ایکٹ کے تحت ملک چلایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ آخر کار 73 کاآئین بنی اور اس کے خلاف بھی سازشیں رہی جس کے بعد 2008 میں اٹھارویں آئینی ترمیم کی گئی جس میں ہم نے جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں انتہائی مشکل سے پشتونوں کو ان کا نام دلایا۔ اٹھارویں آئینی ترمیم میں ہے کہ جو بھی آئین توڑے گا یا اسے معطل کرے گا وہ غدار تصور ہوگا اور اس کی سز ا پھانسی ہوگی۔ ترمیم میں فری کریمنل ٹرائل اور 35Aجیسے آرٹیکل شامل ہیں 11 فیصد تک کابینہ کو کم کیا اور 4 اقلیتوں کی نشستیں سینٹ میں بنائی کنکرنٹ لسٹ ختم کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ اب ایک نیشن ایک نصاب کا نعرہ لگایا جارہا ہے جو آئین کے خلاف ہے صوبوں کو اختیار ہے کہ وہ اپنا نصاب خود بنائیں ایک نصاب بنایا جائے گا تو اس میں ہماری قومی زبانیں شامل نہیں کی جاسکتیں ہے ہماری قومی زبانیں پہلے سے ہی معدوم ہورہی ہیں۔ لیکن ہم پھر بھی اس ترمیم کے ساتھ ہیں اور اسکے خلاف کی جانے والی سازش اور این ایف سی میں اپنے حصے کو کم کرنے کی بھر پور مخالفت کریں گے۔

بی این پی کے مرکزی سیکریٹری جنر ل سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کو تشکیل دیتے وقت ہماری جماعت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اس کے باجود یہ ایک اچھی ابتداء تھی تاکہ صوبوں کو اختیارات مل سکیں۔

انہوں نے کہا کہ صوبوں کی مضبوطی سے فیڈریشن مضبوط ہوگی تاہم کچھ لوگوں کی کوشش ہے کہ تمام چیزیں فیڈریشن کے کنٹرول میں ہوں کیونکہ انکا مزاج آج بھی تبدیل نہیں ہوا۔ اٹھارویں ترمیم کے تحت ججزکی تعیناتی سے متعلق پہلے ہی ترمیم ہوچکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے کیلئے اٹھارویں ترمیم میں اصلاحات لائی جائیں گی اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ صحت اورتعلیم کے محکمے میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا 58-2B پربھی سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے عملدرآمد کیا جائیگا۔

واضح رہے کہ کہ کوئٹہ پریس کلب کی پچاسویں سالگرہ پر 19 ستمبر سے شروع ہونے والی مختلف تقریبات 28 ستمبر تک جاری رہیں گے۔