سردار عطاء اللہ مینگل کے نام کھلا خط – منظور بلوچ

1256

سردار عطاء اللہ مینگل کے نام کھلا خط

تحریر: منظور بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اسلام وعلیکم!
سردار صاحب! امید ہے کہ آپ مزاج بخیر ہونگے. اس خط کا آپ کو لکھنے کا مقصد کچھ اور نہیں. یہ پوچھنا ہے کہ کیا آپ ہمیں 70ء کے عشرے والا سردار عطاء اللہ مینگل لوٹا سکتے ہیں؟

میں جانتا ہوں آپ عمر کے اس حصے میں ہیں جس میں گفتگو کرنا بھی مشکل ہے لیکن اپنے خون آشام وطن کے لوگوں سے دو باتیں تو شیئر کرکے ان کی ڈھارس بندھا سکتے ہیں۔ آپ کے دو اور ایسے الفاظ وطن کے بیٹوں کے عزم و استقلال میں اضافہ کریں گے۔ کیونکہ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں کہ جب سردار صاحب بولتے ہیں تو بولتے ہیں۔ آپ جیسا مقرر پاکستان توکجا نیشنلسٹ لیڈروں میں بھی پیدا نہیں ہو سکا۔

شہید نواب اکبر خان بگٹی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آپ کے طرز تخاطب سے حسد کے جتنا رشک رکھتے تھے۔ آپ جب اسٹیج پر آتے، تو آپ کا والہانہ استقبال، اور آپ کا پہلا جملہ اس کی گھن گرج، ایک شان، عزم اور عظمت لئے گونجتی۔

یہ بات بھی درست ہے کہ بلوچ قوم کو بلوچ قوم آپ کی دھاڑوں نے بنایا لیکن آج آپ خاموش ہیں۔ بلوچستان مظالم کی چکی میں پس رہا ہے۔ اس کی مائیں آنکھوں میں آنسو لئے ہر در کی فریادی بن چکی ہیں۔ بوڑھے باپ خالی خالی اور کھوئی کھوئی آنکھوں کے ساتھ ملیں گے۔ اسی لئے کہ یہ سبھی اپنی اپنی اجڑی دنیا کے واسی ہیں۔

کسی باپ کا نور نظر، لخت جگر آج بھی کئی سالوں کی طرح لاپتہ ہے اس کی موت اور زندگی کی اسکو خبر نہیں۔

بلوچستان میں ایسے بوڑھے باپ بھی ملیں گے جو اپنے نوجوان بیٹوں کے میتوں کو دیکھنے کو بھی تیار تھے۔ اس کے آخری دیدار کا حوصلہ تھا کہ وہ ان کی لاشوں کی مانگ بھی کرنے لگے. ان بوڑھے باپوں کے گھروں میں آپ کو کوئی معذور، کوئی زخمی، کوئی بے روزگار، کوئی ہتھیارا، کوئی نشئی ضرور ملے گا۔

وہ بوڑھے باپ بھی ہیں جنکی بوڑھی آنکھوں نے اپنے نوجوان بیٹوں کا لاش اٹھایا، جسے انجانی قوتوں نے مار دیا ہو اور ان کو اپنے بچوں کے قاتلوں کا بھی علم نہ ہو۔

سردار صاحب!یہاں ایسے بوڑھے باپ بھی ہیں جن کے بیٹے خونی شاہراہوں پر سفر کرتے ہوئے مارے گئے۔ ایکسیڈنٹ کے نام پر ہم سالوں 8 ہزار افراد کی قربانی دیتے ہیں. اس قربانی میں بچ جانے والے معذور ہوکر سماج پر بوجھ بن جاتے ہیں۔

سردار صاحب!میں یہ جانتا ہوں کہ آپ کے کہنے سے ہمارے آلام و مصائب میں کمی نہیں ہوگی، نہیں بالکل نہیں۔ البتہ ایک غمگسار کی کمی پوری ہو جائے گی۔ ایک شیر کے لہجے میں جھلکتی گفتگو تو ہزاروں دلوں کا چراغ بھی بن سکتی ہے۔ قوم کو ایک غمگسار،چارہ گر کی ضرورت ہے۔ قدرت نے آپ کی گفتگو میں وہ تاثیر رکھی ہے جو جلتی ہوئی زندگی کا مرہم بن سکتی ہے۔

ہمیں کل بھی آپ کی رہنمائی کی ضرورت تھی، آج بھی ہے۔

سردار صاحب!آپ کی صحت کے دعا گو ہیں کہ آپ اپنی قوم سے، بیٹوں سے، بچوں سے دل کی دو باتیں تو شیئر کرتے۔ اس وقت بلوچ قوم کے خاندان کے سب سے بڑے، بزرگ، باپ آپ ہی ہیں۔ آپ کے خاندان کو آپ کی گفتگو کی ضرورت ہے، آپ کی ڈانٹ، ڈپٹ بھی سر آنکھوں پر، ہماری غلطیوں پربرسیئے ، ہماری نااہلی کا تذکرہ کریں، لیکن بولیں، کیونکہ ایک عرصہ ہوا بلوچ وطن آپ کی گفتگو کو ترس گئی ہے۔

اس وقت جب اس خاندان میں آپ کے علاوہ نواب خیر بخش مری اور شہید نواب اکبر خان بگٹی ہوتے تو وہ دونوں آپ کے حصے کاکام بھی سر انجام دیتے تھے۔ نواب مری کی خاموشی اور نواب بگٹی کی دبنگ آواز بلوچ خاندان کیلئے باعث طمانیت تھی۔ اور ایسے میں آپ گھن گرج کے ساتھ طرز تخاطب کیلئے آتے۔لاکھوں دلوں کی دھڑکنیں آپ کے الفاظ کے زیروبم کے ساتھ دھڑکتیں۔ آپ کا ایک جملہ اس خاندان میں ملکیت کا احساس بیدار کرنے کو کافی تھا۔ لیکن عرصہ ہوا آپ نے اپنے بچوں سے بات کرنے کا سلسلہ ترک کردیا ہے۔

سردار صاحب! جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب شہید نواب اکبر خان بگٹی پہاڑوں میں تھے آپ پونم کے پلیٹ فارم سے تقریر کر رہے تھے۔ بعد میں پونم کو بھی محمود خان کی تحویل میں دیا۔ اس کے بعد دو وزرائے اعظم سے ملاقاتیں، اس کے بعد میڈیا گفتگو کے ذریعے آپ کے بچوں نے آپ کی باتیں سنیں۔ شاید اس دوران ایک دو ٹی وی انٹرویوز بھی ہوئے ہوں۔

لیکن آپ آخری بار علاج سے قبل کمزور ضرور تھے لیکن گفتگو آپ کی اسی کھنک کے ساتھ قائم تھی۔ آپ سیاست پر گفتگو کو ترجیح دیتے تھے۔

اس دوران غالبا دو ہزار بارہ یا دو ہزار تیرہ میں آپ کی سوانح عمری لکھنے کی بات چل نکلی اور اس سلسلے میں میں نے دوہزار چودہ میں آپ سے ملاقات کی، آپ نے اس پر آمادگی ظاہر کی، لیکن بوجوہ یہ کام آج تک شروع ہی نہیں ہو سکا۔ یہ کام نہیں ہوا، کیوں نہیں ہو رہا۔ اس پر کبھی بعد میں ساری تفصیل لکھوں گا کہ کن لوگوں کی وجہ سے تاریخ سے سردار مینگل کی یادداشتوں کا سلسلہ ختم کروانا تھا۔ تاکہ ان کی جدوجہد، ان کا قد بلوچ بھول جائیں۔

سردار مینگل بلوچ قومی جدوجہد کی وجہ سے ضرور متنازع رہے۔ دو ہزار کے بعد کی ان کی سیاست ان کی ستر کے سیاست سے میل نہیں کھاتی تھی۔ بہت ساری باتیں ایسی ہیں، جن کی وجہ سے شاید تاریخ سردار مینگل کو کسی اور روپ سے بیان کرے۔ اس لئے ضروری تھا کہ ان کی کہانی، ان کی زبانی محفوظ کر لی جائے۔

سردار صاحب! بات نہ جانے کیوں، کہیں اور چلی گئی۔ آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ زندگی بعض اوقات ایسے غم بھی دے جاتی ہے جو کریدنے سے تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ اکثر تاریخ میں بڑے لوگوں نے اچھی اور پر مسرت زندگی نہیں گزاری۔ متمول ہوکر بھی، قوم کی سیاست کے وارث ہونے کے بعد بھی بعض چیزیں انسان کی زندگی سے اس کی خوشی کا محور چھین لیتے ہیں۔

سردار صاحب! آپ کی گفتگو کی ہمیں ضرورت ہے، یہ ضرورت کل بھی تھی، آج بھی ہے، کل بھی ہو گی۔ شاید آپ کی طبیعت اس امر میں مانع ہو۔ لیکن آج سے چھ، سات سال یا اس سے زیادہ عرصہ آپ گفتگو، مجلس کے حوالے سے اچھی صحت رکھتے تھے۔ آپ عام لوگوں سے ملاقاتیں بھی کرتے تھے۔ لیکن اچانک آپ کی جانب سے خاموشی ہوئی۔ بہت کم ایسا ہوا کہ طلباء کے ایک وفد نے آپ سے ملاقات کی یا تصویر بنوائی، اور الفاظ و معنی سے عاری آپ کا بیان کوئی جاری ہوا۔

سردار صاحب! یقین مانیئے، اس عمر میں بھی آپ کی گفتگو حوصلہ بڑھاتی ہے۔ اس قوم کو ابھی بہت سے مدوجزر دیکھنے ہیں۔ ان کا سفر جانے کیوں، مختصر نہیں لگتا شاید یہ بات نسلوں تک چلی جائے۔

لیکن اس سے پہلے کئی ایسے مواقع اور موڑ آتے ہیں جس میں اپنے خاندان کے سب سے بزرگ اور عالی دماغ سے گفتگو کی سخت ضرورت آن پڑتی ہے۔ آپ میں یہ خصوصیت بہ درجہ اتم پائی جاتی ہے۔

سردار صاحب! ہم جانتے ہیں کہ جب آپ تک ماؤں، بہنوں کی صدائیں پہنچتی ہے تو آپ چپ کیوں رہ سکتے ہیں۔ کوئی وجہ تو ہوگی، طبیعت ناسازی یا کوئی اور سیاسی وجہ، اس بارے میں ہم نہیں جانتے کہ اس لئے قوم کو آپ کی صحت کے بارے میں بھی باقاعدہ طور پر میڈیا، یا سوشل میڈیا کے ذریعے کچھ نہیں بتایا جاتا۔ آپ زندگی کے اس مقام پر فائز ہیں سردار صاحب کہ آپ کی لمحے لمحے کی خبر کی قوم کو ضرورت پڑتی ہے۔

آج کے اس جدید زمانے میں لیجنڈری شخصیات کی صحت سے متعلق باقاعدہ طور پر رپورٹس جاری ہوتی ہیں۔ اکثر اوقات ان کی ویڈیو یا گفتگو بھی ٹی وی پر دکھائی جاتی ہے، لیکن اس معاملے میں ہم بالکل بے خبر ہیں۔

سردار صاحب! پوری قوم آپ کی صحت یابی کیلئے دعا گو ہے، آپ کی اس بھاری قیمت ادا کرنے والی ”دھوپ“ ایک سائبان کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔ آپ کی صحت سے متعلق ہر وقت تشویش رہتی ہے۔

سردار صاحب! لیکن آپ صرف ایک ہی خاندان کے فرد نہیں۔ ایک پوری قوم کی اس بڑی فیملی کے سب سے بزرگ شخصیت ہیں۔ جتنا آپ کے خاندان کا حق ہے اس سے شاید زیادہ حق اس قوم کا ہے۔ اس لئے کہ بلوچ اور سردار عطاء اللہ مینگل لازم و ملزوم ہو چکے ہیں۔ بلوچ تاریخ آپ کے بغیر ادھوری ہے اور آپ کی شخصیت بلوچ قوم کے سواء کچھ اور نہیں بنتی۔ اتنے مضبوط اور حساس تعلق کو جیتے جی کیسے ترک کیا جا سکتا اور کیونکر یہ کسی کو حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ پوری قوم کی ایک زندہ تاریخ کے لیجنڈری کردار کو صرف ایک خاندان یا ذات تک منسوب رکھا جائے۔

سردار صاحب! آپ بھولے تو نہیں ہونگے۔ جب میر بزنجو کے انتقال پر آپ کوئٹہ آئے تو آپ کے استقبالی قوم کے نوجوانوں کی ایک قطار کسٹم سے ہوکر اور دوسرا کنارہ ایم پی اے ہاسٹل تھا۔ یہ قوم کی محبت تھی جو آپ پر نچھاور کی جا رہی تھی۔

سردار صاحب! آپ کو یاد ہو نہ ہو آپ کی وطن سے دوری کو لوگ باقاعدہ محسوس کرتے تھے۔ جس روز اخبار میں آپ کا کوئی بیان آتا تو لوگوں کی جذبات دیدنی ہوتے تھے۔ اس دن اخبارات کی سرکیولیشن بڑھ جاتی تھی۔ بلوچ قوم نے ہمیشہ آپ کو صف اول کی قیادت کا استحقاق دیا اور اس کے آپ اہل بھی تھے۔قوم نے آپ کی شان و شوکت کے مطابق عزت و احترام دیا۔ آپ کی وطن سے دوری کو شعراء رومانوی انداز میں پیش کرتے تھے۔ اور سردار صاحب یہ بھی کہ انیس سو اٹھاسی میں بلوچستان نیشنل الائنس نے عام انتخابات اس نعرے پر جیتے کہ ”مری، مینگل آئیں گے، انقلاب لائیں گے“۔

سردار صاحب! جب آپ نے بی این پی بنائی تو کیا قوم نے آپ کی پذیرائی نہیں کی۔ بی این پی کے قیام کے اعلان کیلئے آپ نے جو پریس کانفرنس کیا اس کا جو جوش و خروش تھا وہ بھی سب پر عیاں تھا۔ آپ کی سربراہی میں حکومت بنی اس حکومت میں سب سے اہم رول جمہوری وطن پارٹی کا تھا۔ اس کو کیوں نکالا یا باہر کیا گیا؟ ان کے ساتھ حکومت سازی کے حوالے سے تحریری معاہدہ کس کی ایماء پر اور کیونکر ہوا۔ جو بعد ازاں دشمنی کی شکل اختیار کرگئی۔

شہید نواب اکبر بگٹی کے چودھویں برسی کے موقع پر اس بات کا ایک بار پھر کھل کر اظہار کیا گیا کہ نیپ کے اجلاس سے دو اشخاص یا ایک سینیٹر نے کس کے کہنے پر کس کی آشیرباد سے شہید نواب اکبر خان بگٹی کو ناراض کروایا، اور نواب بگٹی ناراضگی کے عالم میں اجلاس چھوڑ کر چلے گئے، ان کے ساتھیوں نے ان کا ساتھ کیوں نہیں دیا۔ اس ایک واقعہ نے ایک اور چنگاری بڑھکائی جو مدتوں بلوچ قوم اور ان کی قیادت کو چرکے دیتی رہی۔

مذکورہ بالا واقعہ اگر رونما نہ ہوتا تو شاید آج بلوچ کی تاریخ بالکل مختلف ہوتی۔

سردار صاحب! ایسے ایسے سوالات گردش کرتے ہیں جن کے جوابات کیلئے آپ کے سواء کوئی نظر نہیں آتا۔ کیونکہ آپ بلوچ قوم کی ایک خاص تاریخ کے خاص حصے کے قائد اور چشم دید رہے ہیں۔ آپ کا ان باتوں کا قوم سے اشتراک اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ اس سے جہاں بہت سارے نئے سوالات پیدا ہونگے۔ وہاں بہت سے مفروضے بھی اپنی موت آپ مر جائیں گے۔

اس میں بھی شک نہیں کہ اگر سردار صاحب کی یاداشتوں کو محفوظ کیا گیا ان کی اپنی آواز میں تو شاید ان کے لہجے اور باتوں کی تلخ نوا سچائی کو معاشرہ ہضم بھی کرسکے؟

ان تمام باتوں پر تبھی سوچا جا سکتاہے کہ جب سردار صاحب آپ کی یاداشتیں پہلے مرحلے میں محفوظ کر لی جائیں۔ ان کو پڑھ کر ان کا تجزیہ کرنے کے بعد ان کی اشاعت کا کوئی وقت بھی مقرر کیا جا سکتاہے۔ بیس یا تیس سال بعد بھی ان کو شایع کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسا کیا جانا ضروری ہے لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔

چونکہ دو ہزار بارہ سے غالباً سردار صاحب کی سوانح عمری کا میری ذات سے تعلق رہا ہے کہ اس کی پیش کش بھی بی این پی کی جانب سے کی گئی تھی۔ پھر مجھے بتایا گیا کہ سردار صاحب کا کہنا ہے کہ وہ جھوٹ بول نہیں سکتے اور معاشرہ سچ سن نہیں سکتا، لہٰذا میں اپنی سوانح عمری لکھوانے کے حق میں نہیں۔

بعد ازاں دو ہزار چودہ میں، میں نے ان سے وڈھ میں ملاقات کی، اور ان کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنے سیاسی تجربات ہی کم ازکم بلوچ قوم کے نوجوانوں کے ساتھ شیئر کریں۔ یہ بھی قوم کی اور تاریخ کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد رابطہ کاروں سے رابطہ نہیں ہو سکا، فون کیے، میسجز بھیجے اس کے علاوہ پارٹی کے لوگوں اور ان سے ہمدردی رکھنے والوں کو بھی یہی پیغام دیتا رہا کہ سردار صاحب کی سوانح عمری لکھنے کو تیار ہوں۔ لیکن میرے ساتھ رابطہ رکھنے سے گریز کیا جا رہا، بہر حال یہ واقعہ پھر سہی۔

اصل میں بات یہ ہے کہ سردار صاحب کو اس موقع پر جس حد تک ہو سکے۔ بلوچ قوم سے گفتگو کرنے اور مخاطب کرنے کی ضرورت ہے ان کی بوڑھی ذہانت سے بھر پور آنکھوں نے بہت سیاسی نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ ان کی ہر ایک بات ہمارے لئے دانائی کا خزانہ ہوگا۔ ان کا ہر ایک بات بلوچ قومی جدوجہد کیلئے حوصلہ اور غمگساری کا نگینہ ہوگا۔

سردار صاحب! میں بلوچ خاندان کے ایک ایسے فرد کی حیثیت سے، جس کے اس وقت سربراہ ہیں۔ آپ سے آپ کی صحت کا احوال اور صحت دعاؤں کے ساتھ آپ کی گفتگو میرا مسئلہ بھی ہے، میری ضرورت بھی،میرا معمہ بھی۔

سردار صاحب! میں پہلے ہی کہیں اور معموں اور مسئلوں کا اثیر رہا ہوں، لیکن آپ کی خاموشی ان میں تشویش کا اضافہ بن رہی ہے۔ لیکن کیا آپ اپنے بچوں سے ایک بار دانائے راز کی حیثیت سے گفتگو کرنا پسند کریں گے۔۔۔۔۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔

SHARE
Previous articleکیچ میں قابض فورسز پہ حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں – یو بی اے
Next articleریلوے کالونی سبی میں پینے کا پانی ناپید، یونین سراپا احتجاج
منظور بلوچ
بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے بینچہ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ اس وقت بلوچستان یونیوسٹی میں براہوئی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ہیں۔ آپ نے براہوئی زبان میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے، اسکے علاوہ آپ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور ایل ایل بی بھی کرچکے ہیں۔ آپکے براہوئی زبان میں شاعری کے تین کتابیں، براہوئی زبان پڑھنے والے طلباء کیلئے تین کتابیں اور براہوئی زبان پر ایک تنقیدی کتابچہ شائع ہوچکا ہے۔ منظور بلوچ بطور اسکرپٹ رائٹر، میزبان اور پروڈیوسر ریڈیو اور ٹی وی سے منسلک رہ چکے ہیں۔ آپ ایک کالم نویس بھی ہیں۔ آپ بطور صحافی روزنامہ مشرق، روزنامہ رہبر، روزنامہ انتخاب، روزنامہ آزادی، روزنامہ آساپ، روزنامہ ایکسپریس نیوز میں بھی کام کرچکے ہیں اور آپ ہفتہ وار سالار کوئٹہ کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ آپ دی بلوچستان پوسٹ میں بلوچستان کے سیاسی اور سماجی حالات پر باقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں۔