نوشکی میں پکنک پوائنٹ سے لاپتہ ہونے والے دس نوجوان دو سال بعد بھی لاپتہ ہیں – بی این ایم

125

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ ضلع نوشکی کے ایک پکنک پوائنٹ، زنگی نوار سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد لاپتہ کئے گئے دس نوجوان دو سال بعد بھی بازیاب نہیں ہوئے۔ 31 اگست 2018 کو پاکستانی فورسز نے پکنک پوائنٹ سے جن دس افراد کو گرفتار کیا، ان میں میر احمد سمیع ولد رحمت اللہ، عبد الرب ولد حاجی عبدالمجید، بلال احمد ولد میر احمد بلوچ، عبدالرشید ولد عبد الرزاق اور محمد آصف ولد محمد سمیت دیگر پانچ نوجوان شامل ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ دو دن بعد ان دس افراد میں سے دو کی گرفتاری کے بارے میں متعدد پاکستانی ٹی وی چینلز نے اطلاع دی تھی کہ انہیں کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی سے گرفتار کیا گیا ہے لیکن بعد میں ان کے بارے میں کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔ ان کے لواحقین مختلف وقتوں پر کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (وی بی ایم پی) کے کیمپ میں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے احتجاج کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں بلال احمد کے اہل خانہ نے کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ان کی گرفتاری کے بعد بلال احمد کو پولیس کے حوالے نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی اغواکاروں کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ فورسزنے اس کی گرفتاری کی تصدیق بھی کردی تھی، جس کی خبر روزنامہ جنگ میں بھی شائع ہوئی تھی۔ اس کے باوجود انہیں کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ہے جب کہ فورسز کی تحویل میں بلال احمد سمیت دیگر حراست میں لیے گئے افراد کی تصاویر بھی منظرعام پر آئی تھیں لیکن بعد میں ان کی کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔ واضح رہے کہ ان دس لاپتہ نوجوانوں میں سمیع بلوچ کے والد اور چھوٹی بیٹی اس دوران فوت ہوگئے ہیں۔

بی این ایم ترجمان نے کہا کہ پاکستان اپنی بدمعاشی اور عالمی قوانین کی پامالی کو جاری رکھتے ہوئے بلوچوں کو اغوا کرکے لاپتہ رکھنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ نوشکی پکنک پوائنٹ سے اغوا ہونے والے نوجوانوں کی گرفتاری ظاہر کرنے، شناخت بتانے اور میڈیا کے سامنے لانے کے باوجود انہیں لاپتہ کیا گیا۔ اس ضمن میں انسانی حقوق کے اداروں کے پاس ٹھوس ثبوت ہونے کے باوجود کوئی ایکشن نہیں لینا حیران کن ہے۔