تیرہ نومبر کو بلوچستان میں یوم شہداء کے بطور منانا ان عظیم الفطرت فرزندوں کے قربانیوں کو خراج دینا ہے جن کے لہو کی سرخ لہر نے اس سرزمین میں انقلاب کے لئے راہ متعین کیں۔
صرف بلوچ بطور قوم یا بلوچستان میں نہیں بلکہ دنیا بھر کی مقہور اور غلام اقوام میں قومی آجوئی کی خاطر وہاں کے سپوتوں نے قربانیاں دیں اور مٹی کی آسودگی کے لیئے اپنا فرض نبھایا وہاں ایسے تمام فرزندوں کو یاد کیا جاتا ہے اور ان کی قربانیوں کو عقیدت کے ساتھ تسلیم کر کے انکے طفیل مستقبل کی راہیں تلاشی جاتی ہیں۔
ایک غلام سرزمین کے بطور بلوچ وطن کی آجوئی اور اسے پنجاپی سامراج کے نرغے سے نجات دلانے کی خاطر بلوچ سپوتوں نے نڈر اور بہادری کے ساتھ انمٹ داستانیں رقم کی ہیں جو باعث فخر بھی ہیں اور قابل تقلید بھی۔
آجوئی کی جنگ میں سرخ لہو سے سرزمین کو سیرا ب کرکے اپنے سانسوں کی قیمت اسے زندگی عطا کرنے والے سپوتوں کی فہرست بہت طویل ہے قربانیوں کی اس طویل فھرست کا احاطہ مشکل ہے کس کا نام لے کر اس کی قربانیوں کا زکر کیا جائے جان کی قربانی تو سب کا برابر ہے اس میں کس کو امتیاز دیا جائے یا قطعا نا ممکن نہیں ہے شہداء کی درجہ بندی کسی طور پر نہیں کی جاسکتی نا انہیں علاقائی نسبت جدا کیا جانا ممکن ہے اور نا سیاسی و تنظیمی طور پر قربانیوں کو کشید کیا جاسکتا ہے۔
بہتر ہے کہ راہ آزادی کے پروانوں کو ایک لڑی میں پروکر انہیں خراج پیش کیا جائے انہیں یاد کیا جائے اور ان کی قربانیوں کو عقیدت و احترام کے ساتھ اپنے بہتر مستقبل اور آزاد بلوچستان کے لہئے پیمانہ بنایا جائے۔
یہ دن تیرہ نومبر بلاشبہ ایک ایسا قومی دن ہے جو ہر سیاسی امتیاز اور تعصب سے بالا ہونا چاہیے بی ایس او آزاد نے شہداء کی یاد میں یہ دن رکھ کر اہم کام کیا ہے یہ دن ہمیں ایکتا، اتحاد، ہم آہنگی اور اشتراک عمل کا گائیڈ لائن دیتی ہے کہ بلوچ وطن کے عظیم الفطرت فرزندوں نے کسی نام یا تنظیمی بڑھوتری کے بجائے صرف اور صرف قومی انقلاب اور آزاد بلوچستان کی خاطر اپنا قیمتی لہو خراج کیا اپنی جان نچھاور کردی۔
ان کی قربانیاں ہمارے لئے سبق اور راہ کے مشعل بننے چاہیں ان قربانیوں کو اپنا قومی قوت بنا کر دشمن کے ساتھ آجوئی کی لڑائی اکھٹے لڑنا انہیں خراج دینے اور یاد کرنے کا بھتر سے بھتریں زریعہ ہوسکتا ہے۔
اس عظیم ترین دن کی نسبت جہاں شہداء کی فہرست کا احاطہ بلاشبہ ناممکن اور ان کے قربانیوں میں امتیاز ناممکن ہے مگر یقینا بطور دوست، ساتھی اور ھمدرد کچھ ایسے ساتھی بھی ہیں جو باوجوہ شدت سے یاد آتے ہیں۔ ان کی یادیں ان کے ساتھ گزرے وہ قیمتی چند لمحات سرمائیہ بن کر سینے میں بسے رہتے ہیں چاہ کر ان یادوں کو خود سے دور یا جدا نہیں کیا جاسکتا ہے اس دن کی نسبت سے جو تمام شہداء کے لئے یکساں مقرر ہے کسی ایک تزکرہ مناسب نہیں لگا اس لئے بطور خاص کسی ایک شہید پر لکھنے کی حسرت کے باوجود نہ لکھ پایا لیکن جاتے جاتے اپنے استاد اپنے مدبر اور عظیم رہنما شہید چیئرمین سہراب کو سر جھکا کو سلام دیتاہوں جن کی بدولت ہم زندگی اور بلوچستان سے روشناس ہوئے اپنے جگری دوست اور ہمقدم شہید محمد خان مری کو سرخ سلام دیتا ہوں جنہوں نے ایسے وقت میں خود کو انقلاب کی راہ میں امر کردیا جب ان کے خاندان کو ان کے سہارے کی اشد ضرورت تھی۔
اس دن کی مناسبت سرزمین بلوچستان کے تمام شہداء کو لال سلام ۔