درد بھرا خواب
تحریر : غلام رسول آزاد
دی بلوچستان پوسٹ
ایک رات جب میں سونے چلا تو اپنے بستر پر مستقل کروٹیں بدلتے ہوئے بار بار ایک ہی بات سوچ رہا تھا۔ دل میں ایک گھبراہٹ سی بھی ہورہی تھی اور سوچتے سوچتے آنکھوں بند ہوگئیں۔
آنکھیں بند ہونے کے ساتھ ہی کسی شخص نے میرے گھر کے دروازے پر دستک دیا، زور زور سے دستک دیئے جارہا تھا اور ایک آواز کی گونج بلند و کم ہوتی جارہی تھی “دروازہ کھول دو بیٹا” اور میں دروازے کے قریب چلا گیا اور پوچھا کون ہو؟ جواب میں ایک بار پھر آواز آیا “بیٹا دروازہ کھول دو” میں رات کی تنہائی میں خوف کے مارے گھبرا رہا تھا اور دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اس وقت کون ہوگا؟
ایک دھیمی سی آواز آئی “بیٹا ڈرو مت میں ایک فقیر ہوں ۔صبح سے کچھ نہیں کھایا ہے، اگر کچھ کھانے کو ہے؟” اور میں نے دروازہ کھول دیا ایک ضعیف بابا تھا، جو پھٹے پرانے کپڑے زیب تن کیئے ہوئے تھا، جو بھوک کی وجہ سے لرز رہا تھا۔ رات کے کھانے سے کچھ سوکھی روٹیاں بچی تھیں، میں نے وہ لا کر دے دی اور وہ کھانے لگا۔
اس کی آنکھوں سے آنسو بھی ٹپک رہے تھے۔ میں نے بابا جی سے آنسوؤں کی وجہ پوچھا تو کہنے لگے۔
مجھ چیخنا ہے چلانا ہے اور سب کو اپنا درد سنانا ہے ۔
ڈر و خوف کی وجہ سے یہاں لوگوں کے دلوں میں ایک ایسی فضاء قائم ہو چکی ہے، سانس لینا بھی مشکل ہوجاتا ہے، کوئی کسی سے بات کرنے کو تیار نہیں۔ ہر شخص اپنے آپ کو چھپا بیٹھا ہے، ہر شخص دوسرے شخص کا داغ چھپانے کے بجائے اسے اچھالنے میں لگا ہوا ہے۔
یہاں بےدردی سے لوگوں کا قتل کیا جارہا ہے، مگر کسی کو فکر لاحق نہیں۔ غمزدہ ماوں کے بیٹوں کو زنداں میں رکھ کر اذیت ناک موت سے مستقبل کی امیدوں کو بھسم کیا جارہا ہے، مگر۔۔۔۔۔!
کچھ لمحے خاموشی کے بعد وہ دوبارہ بولنے لگا ہر طرف بے ضمیر لوگ اپنے ضمیرکا سودا کرنے میں مصروف ہیں، بات ہر بات پر اتفاقاً نہیں ہر بار ماوں کے لخت جگروں کو غائب کر دیا جاتا ہے۔ طالب علموں سے قلم و کتاب کو چھین کر بندوق اٹھانے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ چین سے زندگی میں سانس لینے بھی نہیں دیا جا رہا ہے، بے چینی اور گھٹن بھری زندگی کو نجات سے پہلے لوگ تمام تر کوششوں کے باوجود چین سے زندگی بسر نہیں کر پارہے ہیں۔
وقت کبھی بھی ان ظالموں کو نہیں بخشے گا ان کے ظلم کی ظلمت کے شب کا چراغ بجھ جائے گا۔
بابا جی کی باتوں کو میں غور سے سنتے سنتے، اپنی سوچ میں جا ڈوبا جو سونے سے پہلے سوچ کر گھبرا رہا تھا، اور اچانک کھڑکی کے شیشوں سے سورج کی روشنی میری آنکھوں پر لگنے لگی۔۔ اور میں نیند سے اٹھ گیا۔ اور دیکھا سب ویسے کا ویسے تھا، صرف میری آنکھوں سے آنسوں بہہ رے تھے اور وہ اک چہرا میری آنکھوں کے سامنے تھا
بابا جی کا چہرہ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔