بلوچستان اور برطانوی مؤرخین | آخری قسط – حرف آخر

805

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

بلوچستان اور برطانوی مؤرخین
مصنف: ڈاکٹر فاروق بلوچ

آخری قسط |حرف آخر (آخری حصہ)

اس میں شک نہیں کہ انگریزوں نے بلوچ و بلوچستان کے موضوع پر کافی اہم مواد فراہم کیا ہے۔ جس کی دیکھا دیکھی مقامی سطح پر زبان و ادب اور تاریخ نویسی کا سلسلہ شروع ہوا مگر یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ برطانیہ ہی وہ اول ملک تھا کہ جس کے جاسوسوں، ایجنٹوں اور گماشتوں نے بہروپ بدل کر بلوچستان کی سیاحت کی اور یہاں کے باشندوں اور ان کے ملک کے بارے میں تحریر کیا بلکہ ان سے قبل عرب اور فارسی بولنے والے لاتعداد سیاح اس خطے میں آئے اور یہاں کے باشندوں اور ان کے خطہ زمین کے بارے میں تفصیلات فراہم کیں اور بذات خود بابائے تاریخ ہیروڈوٹس نے بھی 480ق م کے لگ بھگ یہاں کی سیاحت کی تھی اور ابتدائی معلومات فراہم کی تھیں۔ عربوں اور فارسی سیاحوں کا کام بھی کافی اہم ہے۔ ان عربوں میں المسعودی، ابن حوقل، طبری، ابن خلدون، ابن مسکویہ، عبداللہ یاقوت، ابن خرداذبہ، ناصر خسرو، البیرونی، البلاذری، المقدسی، المسعودی، ابنِ رستہ، عبدالکریم شہرستانی اور کئی دیگر شامل ہیں اور وہ اپنی تصانیف میں بلوچستان سے متعلقہ ابواب میں بلوچوں کا تذکرہ تفصیل کے ساتھ کرتے ہیں مگر ساتھ ہی اپنی توسیع پسندانہ مفادات کی خاطر انہیں کوچ و بلوچ قبائل میں تقسیم کرتے ہیں جس کا واضح مقصد یہی تھا کہ انہیں آپس میں تقسیم کرکے ان پر باآسانی قابو پایا جاسکے یا پھر بغض و حسد کی بنا پر انہیں کوچ و بلوچ کہا اور لکھا، یا پھر فردوسی کی طرح اشعار کا وزن برابر کرنے کی خاطر یا انہیں مشترکہ طور پر خانہ بدوش، وحشی، پہاڑی و صحرائی باشندے وغیرہ قرار دیکر کوچ و بلوچ تحریر کرنا ان کا مقصد تھا۔

ٍ         بالکل اسی طرح انگریزوں نے بھی پہلاوار بلوچوں کی قومی تقسیم پر کیا اور انہیں براہوئی اور بلوچ قبائل میں تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ اب ایک ایسی قوم کہ جو اس خطے میں کسی نیک نیت سے نہیں آئی بلکہ یہاں کے وسائل پر قبضہ کرنے اور یہاں کے باشندوں کو غلام بنانے کا عزم لے کر آئی تھی اور جس نے یہاں کی تاریخ، سیاست و حکومت، جغرافیائی خدوخال، معاشی نظام اور معاشرت تباہ کی۔ بلوچ قوم اور ان کے وطن کو تقسیم کرنے کا ارتکاب کیا اور ہر طرح کے اخلاقی و تہذیبی جرم سے اپنے آپ کو آلودہ کیا، تو اسکی لکھی ہوئی تحریروں پر کون یقین کرسکتا ہے۔ یقیناً ان کی تحریریں بلوچ و بلوچستان کے لئے زیادہ خوش آئند اور مفید نہیں تھیں بلکہ ان کی تحریروں سے بلوچستان کے جغرافیہ اور قومی تقسیم کا عمل شروع ہوا اور بلوچ عوام زبوں حالی اور غلامی کا شکار ہوگئے۔ افسوس اس امر پر ہوتا ہے کہ بلوچ و بلوچستان کے موضوع پر لکھنے والے بیشتر مورخین نے اپنی کتابوں کی تحریر کرنے اور کسی نظریہ سے اتفاق کرنے یا نیا نظریہ قائم کرنے کیلئے انہی انگریزی مواد سے استفادہ کیا۔ گو کہ بلوچستان کے بڑے مورخین محمد سردار خان بلوچ، میر گل خان نصیر، میر احمدیار خان، مولانا نور احمد فریدی، محمد سعید دہوار اور جسٹس میر خدا بخش بجارانی مری وغیرہ نے دیگر زبانوں کے مواد سے بھی استفادہ کیا ہے مگر چونکہ انگریز مورخین کے دیئے ہوئے نظریوں کا عکس ہمیشہ ان کے ذہنوں میں ہوتا تھا اور زیادہ تر عربی یا کلدانی نظریہ انہیں زیادہ معقول نظر آتا تھا لہٰذا دیگر زبانوں کے مواد کا مطالعہ کرنے کے باوجود کہ جو انگریزی نظریوں سے بالکل مختلف ہیں انہوں نے کسی نہ کسی برطانوی مورخ کے نظریے سے اور خصوصا ً پروفیسر رائولنسن سے استفادہ و اتفاق کیا ہے۔

            ہمارے فاضل مورخین یہ جانتے بھی تھے کہ انگریز انہیں الجھا رہے ہیں اور انہیں لاحاصل مباحث میں ڈال کر ان کی توجہ اصل مقاصد سے ہٹارہے ہیں مگر اس کے باوجود ہمارے مورخین ان کی سازشوں کا شکار ہوگئے اور بجائے اس کے کہ قوم کو کوئی ایک نظریہ دے کر اس پر متفق کرتے انہوں نے قوم کو نئے نئے نظریوں کا تحفہ دے کر مستقبل میں مزید الجھنوں کا شکار بنادیا ۔ آج جب کوئی مورخ بلوچ قوم کی قومی اصلیت یا نسلی ماخذ اور بلوچستان کے قدیمی اور حقیقی جغرافیہ کے بارے میں تحقیق کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے یہ تمام موضوعات کہ جن پر بے شمار کام بھی ہوچکا ہے سخت الجھے ہوئے نظرآتے ہیں ان میں سے بیشتر مواد یا تو حقائق سے بالکل ہٹ کر ہیں یا پھر حقائق کو مسخ کرکے پیش کیے گیے ہیں ۔ لہٰذا محقق محسوس کرتا ہے کہ ان تمام کتابوں کے حوالوں کے باوجود ان سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ برطانیہ سمیت کسی بھی غیر ملکی مورخ نے بلوچستان کے بارے میں تمام حقائق کو کبھی بھی آشکارا نہیں کیا اور نہ ہی انہوں نے اس خطے کے باسیوں کی بے شمار خوبیوں کا ذکر کیا۔ ان کی مہمان نوازی،  تحفظ، امداد، سادگی، بردباری، دلیری وغیرہ سے تو استفادہ کیا اور لطف اندوز ہوئے مگر جاتے جاتے انہیں ظالم، وحشی، لیٹرا اور غیر مہذب تحریر کیا۔

            موجود ہ دور میں ایک نئے انکشاف نے یورپ کے مورخین کی دانش اور غیر جانبداری کا پول کھول دیا۔ سواستیکا کا مشہور زمانہ نشان جو آج تک آرین نشان کے طور پر یورپ بلکہ دنیا بھر میں جانا جاتا تھا اور جرمن اقوام اسے اپنے قومی اور جنگی نشان کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ جو نازی پارٹی کے پرچم پر بھی بنایا گیا تھا اور اُن کا نیشنل سیمبل تھا۔ اسے پہلے پہل یورپی اقوام نے ہی آرین نشان قرار دیا تھا اور اسے اختیار کیا تھا۔ مگر بلوچستان میں مہر گڑھ کے آثار قدیمہ سے برآمد ہونے والی کئی قدیم (لگ بھگ 3500ق م) کے ادوار کی اشیاء مثلاً برتنوں، مہروں اور تعویذات وغیرہ پر اس نشان کی موجودگی نے یورپ کے اس دعوے کو باطل قرار دے دیا۔ کیونکہ آرین کا دور 1500ق م تھا جبکہ یہ نشان ان سے 2000 سال سے بھی زیادہ عرصہ قبل مہرگڑھ میں زیر استعمال تھا مگر یورپی اقوام اور دانشوروں نے اس کو آشکارا نہیں کیا اور نہ ہی اس پربحث مباحثے کیے، حالانکہ مہر گڑھ دریافت کرنے والا محقق جین فرانکو ئیس جیرج یورپ (فرانس) کا باشندہ ہے ۔

            درج بالا مثال کی اس باب میں تذکرے کی ضرورت اس لئے پیش آئی تاکہ اس بات کی وضاحت ہوسکے کہ یورپی اقوام کبھی بھی ہمارے آبائو اجداد اور خطہ زمین کے بارے میں جتنا علم رکھتے ہیں ہمیں کبھی بھی نہیں دیں گے بلکہ وہ اپنے مفادات کو ترجیح دیں گے۔

            ضرورت اب اس امر کی ہے کہ بلوچستان کی قدیم تاریخ اور اس کے باشندوں کے بارے میں جو اغلاط کتب تواریخ اور بالخصوص برطانوی مواد میں موجود ہے انہیں حقائق کی روشنی میں پرکھا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ وہ برطانوی عزائم کی کس قدر عکاسی کرتی ہیں اور ان کے اندر کون کون سی سازشیں چھپی ہوئی ہیں یقیناً عمیق و دقیق مطالعہ سے اصل حقائق ضرور سامنے آئیں گے اور ویسے بھی جدید تحقیق نے کئی برطانوی نظریات کو باطل قرار دیا ہے اور ان جاسوسوں کے اصل عزائم کو آشکارا کیا ہے۔ بلوچستان کی تاریخ سے حقیقی معنوں میں دلچسپی رکھنے والے قارئین جانتے ہیں کہ برطانیہ ایک فاتح تھا اور اسکی فوجوں نے سخت مزاحمت کے بعد قلات پر قبضہ کیا تھا اور بعدازاں بھی اس کے تقریباً سو سالہ دور میں قدم قدم پر اس کے خلاف مزاحمت ہوئی تھی اور اس کے مفادات کو سخت نقصان پہنچا یا گیا تھا لہٰذا ممکن ہی نہیں کہ برطانیہ کے وہ مورخین کہ جنہوں نے اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے دوران یہاں جاسوسی یا قبضہ کرنے کے بعد ملازمت کی اور انہوں نے فاتح کی حیثیت سے مفتوح کی تاریخ لکھی، اپنا ملکی مفاد چھوڑ کر یہاں کے لوگوں کو راست بتائیں یا یہاں کی حقیقی تاریخ تحریر کریں۔ یقیناً انہوں نے اپنی توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل اور سامراجی مقاصد کے حصول کی خاطر تحریریں لکھیں تاکہ انکا ’’یونین جیک‘‘ ہر طرف لہراتا ہوا نظر آئے۔


کتابیات

.1آلیور، ایڈورڈ،ای،اے کراس دی بارڈر لینڈ،سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور،2000
.2آلیور، ایڈورڈ،ای، پٹھان اور بلوچ، مترجم، ایم انور رومان، نساء ٹریڈرز، کوئٹہ ،1984
.3ای مارسڈن ، تاریخ ہند، بک ہوم ، لاہور ، 2006
.4 براوی،عزیز اللہ عزیز، ماہنامہ اولس، اسلام آباد، مارچ اپریل، 1986
.5 براہوئی،عبدالرحمٰن،ڈاکٹر ، بلوچستان میں عربوں کی فتوحات اور حکومتیں،زمرد پبلیکیشنز،مستونگ،1998
.6 بروس،رچرڈ آئزک، فارورڈ پالیسی اینڈ اٹس رزلٹس، بک ورلڈ، کوئٹہ، 2002
.7 بلوچ،حمید، مکران، سید ہاشمی اکیڈیمی، کراچی،2008
.8بلوچ،عنایت اللہ، دی پرابلم آف گریٹر بلوچستان ، اے کیسسٹڈی آف بلوچ نیشنل ازم ، سٹٹ گرٹ ، جی ایم بی ایچ ، جرمنی،1987
.9بلوچ، فاروق ، بلوچ اوران کاوطن، فکشن ہاؤس،لاہور،2012
.10بلوچ، فاروق ، خان اعظم میر نصیر خان نوری، حکومت، سیاست، کردار اور شخصیت، فکشن ہاؤس،لاہور،2012
.11بلوچ، فاروق، مہر گڑھ، ایشیاء کی تہذیب میں اس کی اہمیت ، بلوچستان سٹڈی سینٹر ، جامعہ بلوچستان ،کوئٹہ،2011
.12 بلوچ، محمد سردار خان،ہسٹری آف بلوچ ریس، گوشہ ادب، کوئٹہ، 1958
.13پوٹینگر،ہنری ، ٹریول ان سندھ اینڈ بلوچستان، مترجم: پروفیسر ایم انوررومان، نساء ٹریڈرز،کوئٹہ، 1983،سیکنڈایڈیشن
.14تھارنٹن،ہنری، کرنل سر رابرٹ سنڈیمن، نساء ٹریڈرز، کوئٹہ،1977
.15 ٹیٹ،جی۔ پی، کنگڈم آف افغانستان ، انڈس پبلیکیشنز، کراچی،1973
.16 خان،میر احمدیار، تاریخ خوانین بلوچ، اسلامیہ پریس، کوئٹہ،1974
.17 خان،میر احمد یار، تاریخ قوم بلوچ و خوانین بلوچ، العصر پبلیکیشنز، لاہور،2007
.18دہوار ، محمد سعید ،تاریخ بلوچستان ، نساء ٹریڈرز، کوئٹہ ، 1990
.19 ڈیمز،لانگ ورتھ، پاپولر پوئیٹری آف بلوچیز، بلوچی اکیڈیمی، کوئٹہ، 1988
.20 رومان، ایم انور،پروفیسر، کوئٹہ قلات کے براہوئی ، مترجم، ڈاکٹر انعام الحق کوثر، قریشی پبلیکیشنز،کوئٹہ،1987
.21ریورٹی،ایچ ۔ جی، سرزمین افغان و بلوچ، مترجم: پروفیسر سعید احمد خالد، نساء ٹریڈرز،کوئٹہ، 1999
.22 سٹرینج، جی۔لی،جغرافیہ خلافت مشرقی، مترجم:محمد جمیل الرحمان،مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد،1986
.23سراج، منہاج الدین ،مولانا ،طبقات ناصری، انگریزی ترجمہ، ایچ ۔ جی ۔ ریورٹی ، ایشیاء ٹک سوسائیٹی، کلکتہ،انڈیا،1995،سیکنڈ ایڈیشن
.24سعد، ابن محمد، طبقات ابن سعد، مترجم: علامہ عبداللہ العماری،نفیس اکیڈمی، کراچی ، 1972
.25 سمتھ، ونسنٹ اے، قدیم تاریخ ہند ، ترجمہ : مولانا محمد جمیل الرحمان ، تخلیقات ، لاہور ،2001
.26صدیقی،احمد حسین، گوہربحیرہ عرب(کراچی)محمد حسین اکیڈمی، فیڈرل بی ایریا،کراچی، 1995
.27کمبرانی،آغا نصیرخان احمدزئی،تاریخ بلوچ و بلوچستان (جلد اول) بلوچی اکیڈیمی، کوئٹہ، 1982
.28گنڈا سنگھ، احمد شاہ درانی، گوشہ ادب، کوئٹہ،1990
.29گورنمنٹ ریکارڈ،بلوچستان تھرو دی ایجیز، نساء ٹریڈرز، کوئٹہ،1984
.30گورنمنٹ ریکارڈ،بلوچستان ڈسٹرکٹ گزیٹیئر (لسبیلہ)، گوشہ ادب، کوئٹہ ، 1997
.31گورنمنٹ ریکارڈ، دی قلات افئیرز، گوشہ ادب ، کوئٹہ،1977
.32 لاک ہارٹ،لارنس، نادر شاہ، مترجم، طاہر منصور فاروقی، تخلیقات، لاہور،2007
.33لینن،اقوام مشرق کی تحریک آزادی، فکشن ہاؤ س، لاہور،2007
.34 لہڑی،صالح محمدخان،ملک،تاریخ بلوچستان ون یونٹ تک،ہفتہ وار باغ وبہار، کوئٹہ،1952
.35مارکس،کارل ، ہندوستان کا تاریخی خاکہ، تخلیقات، لاہور،2002
.36مری ، شاہ محمد،بلوچ قوم، قدیم عہد سے عصر حاضر تک، تخلیقات، لاہور، 2000
.37 مری، میر خدا بخش بجارانی،جسٹس، بلوچی کہنیں شاعری، بلوچی اکیڈیمی، کوئٹہ ، 1974
.38میک کرنڈدل، انویژن آف انڈیا بائے الیگزینڈر دی گریٹ، انڈس پبلیکیشنز، کراچی ، 1982
.39میگ گریگر، ونڈر نگز ان بلوچستان،انڈس پبلیکیشنز، کراچی، 2003، سیکنڈایڈیشن
.40 نصیر،میر گل خان، تاریخ بلوچستان، قلات پبلشرز، کوئٹہ،2000
.41 نصیر،میر گل خان، کوچ و بلوچ، سیلز اینڈ سروسز، کوئٹہ،1999
.42ہیرلڈ لیم، سکندر اعظم، مترجم، غلام رسول مہر، فکشن ہاؤس، لاہور، 2006
.43 ہیوز، اے ڈبلیو،دی کنٹری آف بلوچستان، سیلز اینڈ سروسز، کوئٹہ، 2002
.44 ہیوز، اے ڈبلیو، سرزمین بلوچستان، مترجم، ایم انور رومان، نساء ٹریڈرز، کوئٹہ ، 2011،سیکنڈایڈیشن


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔