کرونا وائرس- بلوچستان میں ابتک کی صورتحال
ٹی بی پی اداریہ
بلوچستان کے تمام تعلیمی ادارے تاحکم ثانی بند کردیئے گئے ہیں؛ تمام شاپنگ مالز، ریسٹورنٹس، پبلک ٹرانسپورٹ اور پرہجوم جگہوں کو تین ہفتوں کیلئے بند کردیا گیا ہے۔ دس بندوں سے زائد کے اجتماع کو غیر قانونی قراردیا گیا ہے اور دفعہ 144 نافذ کردی گئی ہے۔
یہ تمام اقدامات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت سرگرم ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ تمام اقدامات تب اٹھائے گئے، جب کرونا کی وبا بلوچستان میں پھوٹ پڑی جبکہ اسے روکا جاسکتا تھا۔
جنوری کے اواخر میں کووڈ 19 وائرس چین سے باہر دنیا کے متعدد ممالک میں اپنے قدم جما چکا تھا۔ 19 فروری کو ایران نے کرونا وائرس سے متاثر پہلے مریض کی تشخیص کی اور ایک مہینے کے اندر انکی تعداد 20610 اور مرنے والوں کی تعداد 1556 ہوگئی۔ بلوچستان کا ایران کے ساتھ 954 کلومیٹر طویل سرحد ملتا ہے۔ اسلیئے یہ خطرہ موجود تھا کہ یہ وائرس کسی بھی وقت بلوچستان میں داخل ہوسکتا ہے، اسلیئے فوری اقدامات کی ضرورت تھی۔
24 فروری کو ایران- بلوچستان سرحد کو پانچ داخلی مقامات پر بند کردیا گیا تھا۔ لیکن 28 فروری کو انہی داخلی مقامات کو جنہیں کچھ سیاستدان کرونا کے ” سیلابی ریلے کا گیٹ” کہہ رہے تھے، واپس کھول دیا گیا۔ جہاں سے 6000 سے زائد زائرین اور دوسرے لوگ بلوچستان میں داخل ہوئے۔
گوکہ قرینطینہ مراکز کا قیام وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن بلوچستان کے صوبائی حکومت نے اپنی نا اہلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کیلئے قرینطینہ مراکز بنانے کا فیصلہ کیا، اور زائرین کو ایسی حالت میں رکھا گیا، جیسے وہ وائرس سے متاثر نہیں بلکہ زلزلہ زدگان ہیں۔
صوبائی حکومت نے تفتان بارڈر پر ایران سے آئے زائرین کیلئے ایک خیمہ بستی قائم کردی۔ جو وائرس کو روکنے کا قرینطینہ مرکز بننے کے بجائے، کرونا وائرس کی نرسری بن گئی۔ ایک ساتھ خیمہ بستی میں رہنے کی وجہ سے وائرس خیمہ بستی میں آباد لوگوں میں ایک دوسرے سے منتقل ہوئی۔ یہ واقعہ قومی و بین الاقوامی سطح پر بلوچستان کے صوبائی حکومت کیلئے شرمندگی کا باعث بنی۔
ان زائرین میں سے تقریباً ایک ہزار کو سندھ روانہ کیا گیا، جن میں سے 537 افراد کے ٹیسٹ ہوئے اور 165 میں کرونا کی تشخیص ہوئی۔ باقی زائرین جو دوسرے علاقوں کی طرف گئے، سب کے ٹیسٹ نہیں ہوئے لیکن انکی بہت بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے کیونکہ اس وقت پاکستان میں کرونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 519 بتائی جارہی ہے۔
بلوچستان میں 105 افراد میں کرونا کی تشخیص ہوئی ہے۔ بلوچستان ایک کم آبادی والا خطہ ہے۔ 105 کیسز کا مطلب ہر دس لاکھ میں سے ایک فرد میں کرونا وائرس موجود ہے، اور اس وائرس میں انتہائی تیزی سے پھیلنے کی طاقت ہے۔ اور یہ اعداد و شمار محض ان لوگوں کے ہیں، جن کے لیبارٹری میں ٹیسٹ ہوئے ہیں، یہ اصل متاثرہ لوگوں کی تعداد نہیں ہے۔ کیونکہ بلوچستان کی زیادہ تر آبادی صحت کی بنیادی سہولیات اور ہسپتالوں تک رسائی سے محروم ہے۔ آگے کیا ہوگا؟
کرونا وائرس کا بحران خطے میں داخل ہوچکا ہے لیکن اسکی تباہ کاریوں سے بچا جاسکتا ہے، اگر فوری اور انتہائی اقدامات اٹھائے جائیں۔ دنیا بھر میں مکمل لاک ڈاؤن نے اچھے نتائج ظاھر کیئے ہیں لیکن اسکیلئے خاطر خواہ اقدامات کی ضرورت ہے اور لوگوں کو اتنی سہولیات دینا لازمی ہے کہ وہ گھروں میں رہ سکیں۔
ہسپتالوں کو ہنگامی بنیادوں پر ضروری سازوسامان سے لیس کیا جائے، قرینطینہ مراکز ( خیمہ بستیاں نہیں) ہر ضلع میں قائم کی جائیں، تمام ضروری اشیاء جیسے کے ماسک اور جراثیم کش صابن ہر شہر میں آسانی کے ساتھ مہیا کیئے جائیں۔