بلوچستان اور برطانوی مؤرخین | قسط 18 – برطانوی جاسوسوں کی آمد کے اثرات

206

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

بلوچستان اور برطانوی مؤرخین
مصنف: ڈاکٹر فاروق بلوچ

قسط 18 | برطانوی جاسوسوں کی آمد کے اثرات (پہلا حصہ)

            جس طرح کہ ایک ازلی فطری قانون ہے کہ ہر شے کے دو رُخ ہوتے ہیں ایک تاریک اور دوسرا روشن یا ایک منفی دوسرا مثبت۔ بلوچستان میں برطانوی جاسوسوں اور سرکاری ایجنٹوں کی آمد کے بھی بلوچستان پر ہر دو طرح کے اثرات مرتب ہوئے۔ گوکہ بلوچستان میں برطانیہ کی آمد اور قبضہ سوسالہ غلامی پر محیط ہے اور اس دور کو بہر حال غلامی کا دور ہی کہا جائے گا اور جو ایک بدترین زندگی ہوتی ہے۔ مگر ایسا نہیں کہ غلامی کو بدترین سمجھ کر بھی اس کے خلاف جدوجہد نہ کی جائے بلکہ ضروری ہے کہ جب لفظ غلامی کا مفہوم وسیع معنوں میں سمجھ میں آجائے تو اس کے خلاف ہر سطح پر جدوجہد کرنی چاہیے۔ جیسا کہ برطانوی قبضے کے خلاف بلوچ قبائل نے نوے سالوں تک ایک طویل جنگ لڑی اور بالآخر اسے یہاں سے نکلنے اور اپنا قبضہ ختم کرنے پر مجبور کردیا مگر تب تک برطانیہ کے قبضے کے گہرے اثرات اس خطے اور اس کے باشندوں پر پڑ چکے تھے۔ برطانوی جاسوسوں کی آمد اور بعد ازاں برطانوی قبضے اور ایجنٹوں کی تعیناتی کے دوران ان آلہ کاروں نے جو اقدامات کئے انہوں نے بلوچستان اور بلوچ قوم کے سیاسی، قومی، نسلی، قبائلی، ادبی اور جغرافیائی ماحول کو شدید متاثر کیا، گو کہ ان میں سے بعض اثرات کے مثبت نتائج نکلے مگر مجموعی طور پر بلوچستان کو ہر سطح پر شدید نقصان پہنچا۔

            انگریزی تحریروں سے قبل بذات خود بلوچوں میں تاریخ نویسی کا کوئی رواج نہ تھا بلکہ قدیم قبائلی طرز زندگی کی طرح وہ تمام تر تاریخ ازبر کرلیتے تھے جس میں غلطیوں اور نامناسب اور محیر العقول اضافے ہوتے رہتے تھے مگر برطانیہ نے بلوچوں کی تاریخ اور جغرافیہ کو تحریری شکل دی اور مختلف اہل قلم نے اس سلسلے میں اپنی دانشوری کے جوہر دکھائے اور بلوچ قومی اور نسلی تاریخ پر رائے زنی کی۔ اس سلسلے میں کام کرنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے کہ جن میں کرنل موکلر، جی پی ٹیٹ، پروفیسر رائولنسن، ہنری پوٹینگر، برنس، برٹن، ڈیمز، چارلس میسن وغیر شامل ہیں۔ برطانیہ کے مفادات کی خاطر سرگرم یہ حضرات برطانوی پالیسی ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ پر سختی سے کاربند تھے اور اپنے ملکی مفادات کو تسلسل کے ساتھ آگے بڑھا رہے تھے ان کے عزائم اور بدنیتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جتنے بھی برطانوی اور مغربی مورخین نے بلوچوں کی نسلی تاریخ پر رائے زنی کی ان میں سے کوئی بھی دو یا اس سے زیادہ افراد آپس میں کسی نقطے پر متفق نہیں ہیں۔ ان دانشور نما جاسوسوں نے کبھی بلوچوں کو ترکمان کہا تو کبھی آریا کسی نے عرب کہا تو کسی نے قدیم کلدانی کوئی انہیں راجپوتوں سے تشبیہہ دیتا ہے تو کوئی انہیں قدیم دراوڑ لکھتا ہے۔ صرف اسی ایک موضوع پر ان کے اختلافات سے ہی پتہ چلتا ہے کہ وہ محض برطانوی توسیع پسندانہ عزائم کے لئے سرگرم تھے اور ہر لفظ کے لئے ڈکٹیشن لیتے تھے وگرنہ وہ نسلی یا قومی تاریخ میں نہ تو دراڑ پیدا کرتے، اور نہ اسے گنجلک اور پیچیدہ بناتے نہ اسے غلط انداز میں بیان کرتے اور نہ ہی وہ مستقبل کی بلوچ قوم اور دانشوروں کو کسی لاحاصل بحث میں ڈالتے ۔

            برطانوی جاسوسوں اور سرکاری نمائندوں (ایجنٹوں) کی بلوچ قومی و نسلی تاریخ پر کی جانے والی مباحثوں اور ان کے نتائج میں قائم کیے جانے والے اختلافی نظریوں نے بلوچ قومی ونسلی تاریخ کو شدید متاثر کیا اور آنے والے بلوچ دانشوروں نے انہی برطانوی مواد کو سامنے رکھ کر اپنی اپنی تاریخیں رقم کیں اور بدقسمتی سے یہ دانشور بھی برطانوی سازش کا شکار ہو کر آپس میں نظریا تی اختلافات میں پڑ گئے۔ یہ بھی کسی ایک نقطے پر متفق نہ ہوسکے اور ہر دانشور نے اپنی پسند کے انگریز مورخ کے نظریے سے اتفاق کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بلوچ دانش وروں میں کوئی کلدانی نظریے کا حامی ہے۔(1) تو کوئی بلوچوں کو آریا مانتا ہے (2) اگر کوئی انہیں عرب کہنے پر اصرار کرتا ہے(3) تو دوسرا انہیں ترکمان ماننے کی تلقین کرتا ہے(4) نظریات میں ان اختلافات کی وجہ انگریزی مواد سے استفادہ کرنا ہے وگرنہ انگریزی مواد ابتدائی یا پرائمری مواد نہیں ہے بلکہ عر ب، فارسی اور یونانی ادوار میں لکھا جانے والا مواد بھی موجود ہے کہ جو نہ صر ف سینکڑوں اور ہزاروں سال پرانا ہے بلکہ وہ انگریزی مواد کی مکمل نفی بھی کرتے ہیں۔ افسوس ہمارے مقامی مورخین کی بیشتر تعداد نے صرف انگریزی مواد کو ہی اپنا مطمع نظر مانا اور اسی سے متفق ہوکر ہر مورخ نے بلوچوں کو غیر ملکی اور مہاجر قرار دیا۔ مگر آج کا جدید مورخ کچھ اور سوچتا ہے۔ بلوچستان کے آثار قدیمہ کی دریافت اور ان سے برآمد ہونے والی اشیاء نے تقریباً برطانوی نظریات کو جو انہوں نے بلوچ قومی ونسلی تاریخ کے حوالے سے قائم کی تھیں رد کردیا ہے اور ان برطانوی اثرات کو کہ جن کی وجہ سے تقریباً ڈیڑھ سو سالوں تک بلوچ قومی تاریخ متاثر ہوئی کو ختم یا زائل کرنے میں کامیاب ہوا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔