دو سالونک شہید – یاسر بلوچ

652

دو سالونک شہید

تحریر :  یاسر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

 

اس دنیاِ فانی میں ہر قسم کے انسان آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن کچھ ایسے فرشتہ نما انسان بھی پیدا ہوتے ہیں جو اپنی چار روزہ زندگی میں ایسے عظیم کارنامے انجام دیتے ہیں کہ ان کے جانے کے بعد لوگ انہیں یاد کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، وہ عظیم انسان اپنی ذات کے لیئے نہیں جیتے ہیں، بلکہ اپنے قوم و سرزمین کے لیئے ہر قسم کی قُربانی حتیٰ کہ جان کی بھی قُربانی بھی دیکر، قومی تاریخ میں ہمیشہ سنُہرے الفاظ میں زندہ رہتے ہیں۔ بلوچ سرزمین پر بھی ایسے بہت سے عظیم انسان پیدا ہوئے انہوں نے اپنی زندگی کی تمام ذاتی خواہشات کو ایک جانب رکھ کر قومی تحریک اور جدوجہد آزادی کی خاطر ہر قسم کی قُربانی دیکر اور شہادت کا عظیم رتبہ حاصل کرکے بلوچ تاریخ کے شہداء کے فہرست میں شامل ہوگئے ہیں۔

آج میں بلوچستان کے ان دو عظیم انسانوں کے بارے میں کچھ لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں، جنہوں نے کم عمری میں ہی قومی غلامی کے خلاف اور بلوچستان کی جدوجہد آزادی کی خاطر اپنی قیمتی سروں کی قربانی دیکر بلوچ نوجوانوں کے دلوں میں آزادی کی جدوجہد کا جذبہ پیدا کرکے خود امر ہوگئے ہیں۔ وہ دونوں بلوچ فرزند سالونک یوسف عرفِ دودا جان اور سالونک ناجد عرفِ سلیم جان ہیں۔

جب میں پہلی بار شہید ناجد سے ملا تو ہم ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے، ایک دن ہم دونوں کا ملاقات ہوا، وہ ہمارا پہلا ملاقات تھا، وہاں سے ہم دونوں ایک دوسرے کو جاننے لگے، اسی طرح ہم دوست بن گئے، پھر ایک دن جب ہم ایک ساتھ تھے تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں اپنے بھائیوں کے ساتھ ہوں، ہم بہت خوش تھے، جب ایک دن ہم شہید دودا کے گھر آئے، میں نے شہید دودا کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، وہ ملاقات میرا اور شہید دودا کا پہلا ملاقات تھا، اس وقت جب پہلی بار دودا جان سے ملا تو میں بہت خوش ہوا تھا، شہید دودا اور شہید ناجد اپنے وطن بلوچستان کے خاطر اپنے جان کی قربان دینے کیلئے تیار تھے، وہ دونوں ایک ساتھ ایک ہی تنظیم ( بلوچ لبریشن آرمی ) سے تعلق رکھتے تھے، ایک دن نومبر کا مہینہ اور سال 2019 تھا، شہید دودا علاقے کی جانب جارہے تھے، اس نے مجھے کہا کہ میں جارہا ہوں، ناجد جان میرے لئے انتظار کر رہا ہے، وہ دونوں ایک ساتھ آئے تھے، میں اکیلا بہت انہیں یاد کرتا تھا۔

جنوری 2020 کا سال تھا، انہوں نے کبھی مجھ سے رابطہ نہیں کیا، ایک دن میسج آیا کہ آج بلیدہ میں بلوچ سرمچاروں کا پاکستان کے پالے ہوئے ڈیتھ اسکواڈ کے ساتھ جنگ ہو رہا ہے، ناجد اور دودا نے اپنے تین ساتھیوں سمیت شہادت نوش کی ہے۔

اسی طرح گذرے ہوئے ہر سال کے جنوری نے ہم سے ہمارے عظیم ہستیوں کو جدا کیا، اس سال بھی میرے بھائی جیسے دوست شہید دودا جان اور شہید ناجد جان کو ان کے تین ساتھیوں سمیت ہم سے جسمانی طورپر جدا کیا گیا۔

یہ اپنے مادر وطن اور اپنے قوم کی خاطر اپنے آپ کو قربان کرنے کے لئے کبھی پیچھے نہیں ہٹے، آج بھی اپنے دوستوں کا خیال میرے دل میں آتا ہے، ایسا لگتا ہے میں اپنا سب کچھ ایک ساتھ کھویا ہوں، اسی طرح ہر سال ہمیں ایسا درد دے کر چلا جاتا ہے اور ہر سال ہمارے لئے ایک غم زدہ سال ہوتا ہے، پوری دنیا میں سب سالوں کو بدلتے خوشیاں مناتے ہیں اور بلوچستان میں ہر سال ہم نئے درد کے سہنے کی تیاری کرتے ہیں، آج ہمارے نوجوان اپنے قوم کے مستقبل کے لئیے اپنے آج کو قربان کررہے ہیں تاکہ ہمارے آنے والے نسل کو کل کوئی غلام بنانے کا نہ سوچے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔