ہمہ جہت جنرل
فراز بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بقول خان معظم میر احمد یار خان “بلوچستان کو اس کے جغرافیائی اہمیت اور سرحدی محل وقوع کے اعتبار سے ایشیاء میں ایک اہم ترین بفراسٹیٹ کی حیثیت حاصل رہی ہے ۔ اس لئے بلوچوں کو ہمیشہ اپنے سے زیادہ طاقتور اور باجبروت حکومتوں سے ٹکرانا پڑا ہے ۔ بلوچوں نے آرام سے بیٹھ کر کبھی بزم آرائی نہیں کی بلکہ میدان رزم کی گرم بازاری ہی ان کے حصے میں آتی رہی ہے اور انہوں نے اپنی ساری زندگی مدافعانہ جنگ و جدل میں گزاردی ہے ۔” بلوچستان کی سرزمین ہمیشہ سے مردم خیز رہی ہے اور تاریخ کے ہر دور میں اس خطہ زمین نے نامور ہستیوں کو جنم دیا ہے۔ لاتعداد ایسی بلوچ شخصیات تاریخ میں موجود ہیں کہ جن کے بارے میں ہر عام و خاص جانتا ہے۔
بہر حال وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور بلوچ سرزمین پھر ایک بار استعماری طاقتوں کے شکنجوں سے اپنی وطن کی مکمل آزادی کیلئے جدوجہد عمل میں برسرپیکار ہیں ۔ وطن پرست بلوچ جانثاروں نے اپنی ان گنت قربانیوں سے جاری بلوچ قومی تحریک میں بہادری اور سطوت کے نشان نقش کئے ہیں ۔
ایسے ہی عظیم اور باوقار تاریخ ساز شخصیات میں ایک نام شہید جنرل اسلم بلوچ کا بھی آتا ہے کہ جنہوں نے جاری بلوچ قومی تحریک میں سب سے اعلیٰ درجہ حاصل کیا ہے۔
شہید اسلم بلوچ گوریلہ تنظیم بی ایل اے کے ابتدائی ساتھیوں میں سے ایک تھے، وہ 1995 سے قبل ہی تنظیم کا حصہ بنے۔ انہوں نے ایک عسکری کمانڈر کی حیثیت سے بلوچ مزاحمت کو نئی جہتیں بخشیں۔ ان کی خطرناک گوریلا کاروائیوں کی وجہ سے دشمن کو ہمیشہ شدید مالی و جانی نقصان اور اذیت کا سامنا کرنا پڑا جس کے تدارک کے لئے حکمرانوں نے نام نہاد قوم پرستوں کے ساتھ ملکر مختلف سازشیں کئے مختلف حربے اور ہتھکنڈے استعمال کئے تاکہ اسلم بلوچ کو شہید کرکے اپنے مورال کو بلند کیا جاسکے۔ لیکن شہید اسلم بلوچ نے اپنے کامیاب جنگی حکمت عملیوں کی وجہ سے دشمن پر ہمیشہ کاری ضربیں لگاتے رہے۔
بی ایل اے مجید بریگیڈ کا قیام، فدائیوں کی تربیت اور دشمن پر فدائی حملے ان ہی کے جنگی حکمت عملیوں کا حصہ ہیں۔ شہید اسلم بلوچ اور ان کی اہلیہ اماں یاسمین نے بلوچ تاریخ کو پھر سے دہرایا ۔ اانہوں نے اپنے جواں سال لخت جگر ریحان جان کو بلوچ وطن پر قربان کرکے میر دودا اور میر کمبر کی عظیم ماوں کی یاد تازہ کردی ۔ شہادت کے وہ مناظر ہماری ذہنوں میں نقش ہوگئے ہیں کہ کس طرح اماں یاسمین اور شہیداسلم بلوچ نے اپنے بیٹے کو تنہا دشمن پر ٹوٹ پڑنے کیلئے رخصت کیا اور شہید ریحان جان نے کس دیدہ دلیری سے حملہ کرکے سامراجی طاقتوں کو انگشت بدنداں کردیا۔ شہید اسلم بلوچ کی جنگی حکمت عملی نے دشمن کے وسیع استحصالی منصوبوں کو خاک میں ملا دیا ۔ اور دنیا کے سامنے اس کی مکرہ چہرہ کو عیاں کرکے دکھا دیا۔
25 دسمبر شہید اسلم بلوچ اپنے تنظیم کے دوسرے اہم ساتھیوں کمانڈر کریم مری ، تاج محمد مری، اختر بلوچ، سنگت امان اللہ اور سنگت بابر مجید کے ہمراہ قندھار میں قبضہ گیر ریاست کے پالتو خودکش بمبار کے حملے میں شہید ہوئے لیکن ان کا فلسفہ آج بھی زندہ ہے یہ فلسفہ جاری رہیگا۔ یہ فلسفہ ہمیں بتاتی ہے کہ ذلت و غلامی کی زندگی گزار کے مرنے سے بہتر ہیکہ میدان میں نکل کر دیدہ دلیری کیساتھ سینہ ٹھوک کے آزادانہ ان درندوں کا مقابلہ کرتے ہوئے غیرت کی موت مارا جائے۔ شہید اسلم بلوچ کے اس ناقابلِ فراموش کردار کے اعتراف میں انہیں بی ایل اے کی تنظیم نے اعلیٰ ترین اعزاز “جنرل” سے نوازا ۔ شہید اسلم بلوچ کی یہ قربانی تاریخ کا حصہ بن گئی۔
ابوالقاسم فردوسی کے اشعار جو انہوں نے بلوچوں کے بارے میں کہا وہ سچ ہے کہ “یہ پیدائشی سپاہی ہیں اور جنگوں میں مینڈھے کی طرح ٹکریں مارتے ہیں انھوں نے کبھی کسی کی سیادت قبول نہیں کی اور ہر غاصب کے خلاف لڑتے رہے۔ “
آج کا بلوچ بھی بعینہ ماضی قدیم کے بلوچ کی طرح اپنی قومی اور وطنی آزادی کا خواہاں ہے وہ سب کچھ کرسکتا ہے مگر وطن پر کبھی سودا بازی نہیں کرتا یہی اسکی نفسیات ہے اور یہی اسکا ماضی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔