گیارہ اگست کی اہمیت و لیجنڈ شہید ریحان کی قربانی
تحریر: عبدالواجد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ویسے خون آلود بلوچستان کی موجودہ حالت کے ساتھ مہینہِ اگست کا خاصہ تعلق ہے، یہی ماہِ اگست ہے جس سے بلوچ زمین کو کئی زخم ملے اور ایسے لمحے بھی ہیں جس سے مسرت و خوشی اپنا الگ مقام رکھتا ہے. ایسا بھی ہے کہ اسی ماہِ اگست میں بلوچ نوجوانوں نے اس تحریک کی آبیاری کے لیئے اپنا خون پیش کیا اور تاریخ میں امر ہوگئے۔
“گیارہ اگست انیس سوسینتالیس کو برطانوی حکومت نے بلوچستان کی آزاد اور خودمختار حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے بلوچستان کی آزادی کا اعلان کیا تھا۔ بعد ازاں پندرہ اگست کو برصغیر ہند کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ہندوستان اور پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ بلوچستان جو کہ اپنے سابقہ و ممتاز نام قلات اسٹیٹ سے پہچانا جاتا تھا نے آزادی کے فوراً بعد اپنے جمہوری حکومت کی ساخت قومی اسمبلی کی صورت میں رکھا، جس کی دو ایوانیں تھیں جو کہ برطانیہ کی پارلیمانی نظام سے مماثلت رکھتی تھیں۔ یہ ایوان بالا اور ایوان زیرین پر مشتمل تھی۔ بلوچستان کے سربراہ خان آف قلات میر احمد یار خان نے وقت ضائع کئے بغیر آزادی کے فوراً بعد عام انتخابات کا اعلان کیا تھا، جس میں قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی نے بلوچستان میں پہلی منتخب حکومت قائم کی لیکن، ستائیس مارچ انیس سو اڑتالیس (1948)کو پاکستان نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے بلوچستان پر جبری قبضہ کرکے بلوچستان کی آزادی کو سلب کرلیا۔
بلوچ قوم گذشتہ کئی دہائیوں سے گیارہ اگست کو برطانوی سامراج کیخلاف بلوچ قومی آزادی کی علامت کے طور پر مناتے آرہے ہیں. گیارہ اگست کو یومِ آذادی منا کر بلوچ قوم اپنی آزاد حیثیت کو یاد کرکے اس موجودہ تحریک کے زریعے ریاستی قبضہ گیریت کے زنجیروں کو کمزور کرکے پہلی حالت کی بحالی کو مضبوط نقشہ فراہم کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں، گو کہ گذشتہ ستر سالوں سے بلوچ قوم غلامی کے ان درد ناک لمحوں کو یاد کرکے ایک لمحہ ان مصائب کو بھول کر آزاد وطن کی فضاؤں میں چند دقیق سانسیں لینے کی سعی کررہی ہے.
ماہِ اگست کو یاد کرکے جس طرح ہم جشنِ آزادی منا کر اپنے زخموں پر مرہم لگانے کی کوشش کرتے ہیں اسی لمحہ ہم ان تمام عظیم شہداء کو یاد بھی کرتے ہیں جنہوں نے اس مہینے میں قربانیاں دی تھی. ماہِ اگست کے تلخ و شیریں تجربات کو سامنے رکھ کر بلوچ قوم نے ہمیشہ تحریک کو مضبوط سے مضبوط تر کر دیا جی ہاں یہ وہی ماہِ اگست ہی تھا کہ اس مہینے میں مند کے خشک و بنجر زمین سوراپ میں بلوچ گوریلا شہید ڈاکٹر خالد بلوچ و شہید دلجان بلوچ نے طاقت ور ریاست کا تنِ تنہا مقابلہ کرکے اس خشک زمین پر اپنا خون گرا کر اس زمین کو سیراب کیا جو آج تلک سبزہ زار میں تبدیل ہوچکا ہے.
نواب اکبر بگٹی جیسے عظیم پایہ کے لیڈر نے تراتانی کے میدان میں 80 سال کے پیراں سالی کے باوجود انتہائی جرات و بہادری سے طاقت ور فوج کا مقابلہ کرکے شہادت نوش کیا اور تحریک آزادی بلوچستان کو نئی جہت بخشی.
بلوچ قوم میں آج کافی حد تک شعور پھیل چکی ہے، وہ ترقی کے بھیس میں چھپے قابل نفرت غلامی کو سمجھ چکے ہیں لیکن اس شعور کو سمجھنے کے لیے ہمیں پہلے ان قربانیوں کا تذکرہ کرنا ہوگا وطن کے ان فرزندوں کو یاد کرنا ہوگا کہ جنہوں نے اپنی سنجیدگی سے اپنی قربانیوں اپنے جہد مسلسل سے اس خواب غفلت میں محو اس قوم کو مجبور کردیا کہ وہ اس راستے پر چلے جسے آزادی کا راستہ کہتے ہیں.ایسا ہی ایک نام ایک گوہرنایاب ریحان جان ہے جس نے اپنی تمام تر زندگی اپنی تمام تر صلاحیتیں اپنا ذات اپنی خواہشیں آسودگی سب سے بڑھ کر قیمتی شے اپنی جان کو اپنے آج کو قوم کے آنے والے کل کے لیے قربان کیا حالانکہ ان کے سامنے ایک نئی زندگی پڑی تھی ان کا تو انہی لمحوں میں منگنی بھی ہوا تھا، چاہے تو وہ اس نئی زندگی کے دہلیز پر قدم رکھ کر اک نئی شروعات کرسکتا تھا لیکن نہیں انہوں نے عظیم استاد شہید استاد اسلم کی تربیت و صحبت کا لاج رکھ کر اپنے آپ کو غاصب قوتوں کے خلاف فدائین کی شکل میں پیش کیا اور اس قربانی کے بعد وہ امر تو ہوگئے لیکن ان کی اس قربانی نے بلوچ تحریک کو ایک نیا مقام دیا ایک نیا راستہ فراہم کیا۔
ان کی اس قربانی نے بلوچستان میں موجود غاصب و توسیع پسندانہ سوچ رکھنے والے دنیا کے طاقت ور ملک چائینہ کو انگشت بدنداں کیا آج یقیناً چائینہ بلوچستان میں نیا سرمایہ لگانے سے پہلے سو مرتبہ شہید ریحان و زر پھاذگ کے فدائین کو یاد کرکے سوچے گا کہ وہ اپنا سرمایہ لگائے کہ نہیں۔
بحیثیتِ بلوچ ہمارا یہ فرض ہے کہ گیارہ اگست کو جشنِ آزادی بلوچستان منانے کے ساتھ ساتھ ان تمام شہداء کو یاد کرکے یہ عزم کرنا ہوگا کہ ریاستی قبضہ گیریت کے خاتمے تک ہم اپنا حصہ ضرور اس تحریک کو دیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔