مادری زبانوں کے فروغ کیلئے کام نہیں کیا گیا تو تاریخ اور اگلی نسل ہمیں معاف نہیں کریگی – بی این پی

330
نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت نے اپنے مختصر دور میں اس ملک میں محکوم قوموں کی مادری زبانوں بلوچی ، پشتو ، سندھی ، سرائیکی اور دیگر کو نصاب تعلیم میں شامل اور بنیادی تعلیم میں شامل کرنے کے حوالے سے جدوجہد کیا اور اس کے بعد آنے والے حکمرانوں نے کبھی بھی اس اہم مسئلے کی طرف توجہ نہیں دی- تقریب میں مقررین کا خطاب
بلو چستان نیشنل پا رٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ میں اقوام متحدہ کی ذیلی ادارے یونیسکو کی جانب سے مادری زبانوں کے عالمی دن کی مناسبت پر بی این پی کوئٹہ کے زیر اہتمام ایک پروگرام منعقد ہوا ۔ پروگرام کی صدارت پارٹی کے مرکزی قائمقام صدر ملک عبدالولی کاکڑ نے کی ۔ مہمان خاص پارٹی کے مرکزی ہیومن رائٹس سیکرٹری موسیٰ بلوچ ، اعزازی مہمان پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے ممبر غلام نبی مری تھے ۔ پروگرام کی کاروائی پارٹی کے ضلعی ڈپٹی جنرل سیکرٹری محمد لقمان کاکڑ نے سرانجام دی ۔

پروگرام سے پارٹی کے مرکزی قائمقام صدر ملک عبدالولی کاکڑ ، مرکزی ہیومن رائٹس سیکرٹری موسیٰ بلوچ ، مرکزی کمیٹی کے ممبر غلام نبی مری ، ضلعی جنرل سیکرٹری آغا خالد دلسوز ، ضلعی نائب صدر طاہر شاہوانی ایڈووکیٹ ، سعید کرد اور دیگر نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مادری زبانوں کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سے روشنی ڈالی اور اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی سطح پر مادری زبانوں کی ترقی و ترویج کے حوالے سے دن منانے کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے جو مادری زبانیں حکمرانوں کے عدم توجہی کے نتیجے میں ختم ہونے کی طرف جارہی ہیں انہیں زندہ رکھنے کے لئے اہم ثابت ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ مادری زبانوں کی قوموں کے ثقافت ، تہذیب و تمدن ، بقاء ، سلامتی کے لئے اہم کردار ہے ۔ آج دنیا میں جن قوموں نے اس تیز ترقی یافتہ دور میں ترقی و خوشحالی کے منازل طے کررہے ہیں ان کا بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بنیادی نظام تعلیم مادری زبانوں کے حوالے سے مرتب کیا ہے اور وہ اپنے مادری زبانوں کو مزید فروغ ، ترقی ترویج کے لئے ریسرچ کے ادارے اور انہیں متعارف کرانے کے لئے سالانہ بجٹ میں خصوصی فنڈزمختص کئے جاتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ 1952ء کو بنگلہ دیشن کے طلباء نے اپنے زبان کو سرکاری اور تعلیم نصاب میں شامل کرنے کے لئے پرامن سیاسی و جمہوری جدوجہد کیا لیکن ناعاقبت اندیش حکمرانوں نے بنگلہ دیشی عوام کے اس جائز آئینی اور جمہوری مطالبے کو تسلیم کرنے کی بجائے انہیں طاقت کے ذریعے دبانے کی کوشش کیا اور اس کے بعد بنگلہ دیشی عوام نے اپنے قومی حقوق کی جدوجہد کو آگے بڑھایا ۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت نے اپنے مختصر دور میں اس ملک میں محکوم قوموں کی مادری زبانوں بلوچی ، پشتو ، سندھی ، سرائیکی اور دیگر کو نصاب تعلیم میں شامل اور بنیادی تعلیم میں شامل کرنے کے حوالے سے جدوجہد کیا اور اس کے بعد آنے والے حکمرانوں نے کبھی بھی اس اہم مسئلے کی طرف توجہ نہیں دی جس کے نتیجے میں یہاں کے محکوم اقوام میں بولی جانے والی مادری زبانوں کو خصوصی اہمیت نہ دینے کے باعث ان زبانوں میں احساس محرومی اور بے چینی پائی جاتی ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے کہ قوموں کی حقوق پر واک و اختیار کے ساتھ ساتھ مادری زبانوں کو بھی سرکاری اور دفتری سطح پر تسلیم کرانے کے لئے کوئی توجہ نہیں دیا جارہا ہے یہ عمل یہاں کے اقوام کے ساتھ ناانصافیوں اور امتیازی سلوک کا تسلسل ہے ۔ دنیا کے تمام ماہر لسانیات اور تحقیقی ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ قوموں کی ترقی و خوشحالی اپنے وجود شناخت بقاء و سلامتی کی تحفظ مادری زبانوں کے ذریعے تعلیم دینے میں مضمر ہے ۔

انہوں نے کہا کہ آج اس ملک میں بلوچی ، پشتو ، سرائیکی ، سندھی ، ہزارگی زبانیں حکمرانوں کے عدم توجہی اور زبوں حالی کا شکار ہے جس کے نتیجے میں آنے والے سالوں میں خدشہ ہے کہ ہزاروں سالوں پر محیط یہ قدیم ترین مادری زبانوں کے وجود اور شناخت ختم ہونے کی طرف جائے گا ۔ آج بلوچی ، پشتو ، براوی زبانوں کو سرکاری ، الیکٹرانک میڈیا میں وہ مقام حاصل نہیں ہے اور نہ ہی ان زبانوں کے لئے خصوصی چینل چلانے کے لئے وسائل مہیا کئے جاتے ہیں اور مقامی زبانوں کی فروغ کی جدوجہد میں مصروف عمل مقامی اخبارات اور ایک سے دو چینل شدید ترین معاشی مشکلات سے دوچار ہیں ۔

مقررین نے کہا کہ جو قومیں اپنے ثقافت ، زبان ، تہذیب کی صحیح انداز میں تحفظ دینے کے لئے کام نہیں کرتی وہ قومیں صفہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں ۔ دنیا میں ہزاروں زبانیں بولی تو جاتی ہیں لیکن ان فہرست میں ایسی زبانیں بھی ہیں جو آج اپنی حیثیت کھو چکی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مادری زبانوں کا عالمی دن کا مقصد ہر گز دیگر زبانوں کے ساتھ تعصب و تنگ نظری ہر گز نہیں بلکہ تمام مادری زبانوں کو یکساں اور برابری کی بنیاد پر تمام سہولیات فراہم کرنے کی موقع فراہم کیا جائے ۔ انہوں نے بی این پی کے کارکنوں سے کہا کہ وہ بلوچستان میں بولی جانے والی بلوچی ، پشتو ، براوی ، کھیترانی ، دہواری ، ہزارہ گی ، سرائیکی زبانوں کی ترقی و ترویج کے لئے خصوصی توجہ مرکوز رکھیں اور ان کے لئے مختلف پروگراموں کا اہتمام کرکے وہاں پر دانشوروں کو مدعو کریں اور ان کی خدمات سے فائدہ حاصل کریں اگر ہم نے عملی طور پر مادری زبانوں کے فروغ کے لئے مخلصی و سچائی سے کام نہیں کیا تو آنے والے تاریخ اور نسلیں ہمیں کسی بھی صورت میں معاف نہیں کریں گی ۔