اکبر خان کی شہادت و مشرف سے نفرت :تحریر : برزکوہی بلوچ

1218

نواب صاحب نے تو اپنا قومی قرض و قومی فرض سب کچھ چکا دیا
کس نے مارا؟ کیوں مارا؟
نفرت کس سے ہونا چاہیے ؟
بدلہ کس سے لینا چاہیے؟
گناہ گار، مجرم سزاوار کس کو ٹہرانا چاہیے؟
کیا مقصد حاصل کرنا چاہیے؟
انصاف کیلئے کس کے پاس جانا چاہیے؟
قاتل وہی، قاضی وہی، جج وہی ، گواہ بھی خود، عدالت بھی خود اور مجرم بھی،
سب کچھ وہی پھر بھی اسی سے انصاف کا تقاضہ پورا کرنے کا گلہ کرنا انصاف کے انتظار میں لائن میں کھڑا ہونا بذات خود بہت بڑی ناانصافی ہوگا۔
دانستہ یا غیردانستہ طور پر ہم کیوں حقائق کو مسخ کرتے آرہے ہیں؟
مشرف جیسے فوجی ملازم جام اور نوشروانی جیسے کٹھ پتلی وزیر اور صمد لاسی جیسے ضلعی افیسر کی کیا اوقات؟
پاکستانی آئی ایس آئی ،ایم آئی اور مقتدرہ کے سامنے کہ وہ مل بیٹھ کر یہ فیصلہ کرلیں ،چلو بھائی آج بلوچ قومی لیڈر اکبرخان بگٹی کو مار دینگے ۔
آئی ایس آئی، ایم آئی اور پنجاپی مقتدرہ یعنی پاکستانی ریاست پاکستانی ریاست سے مراد ہر وہ بندہ جو اپنے آپکو پاکستانی کہتا ہے اور پاکستانی سمجھتا ہے وہ سب کے سب نواب اکبر خان سے لیکر ہر اس بلوچ کی شہادت میں برائے راست ملوث ہے جو پاکستان کی غلامی کو قبول نہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کئے ہیں۔
پھر بلوچوں کی نفرت اور غصہ کو محدود کرنا اور پاکستانی عدالتوں سے مشرف جیسوں کو سزا دلانے کی اپیل اور کوشش کرنا دانستہ طور پر بلوچوں کی جذبات و غصہ اور نفرت کو سرد خانے میں ڈالنے کی باقاعدہ و شعوری کوشش ہے۔
اگر کل کوپاکستان فیصلہ کرتا ہے کہ مشرف سمیت دیگر کو بھی اکبر خان کیس میں پھانسی پر لٹکا دینا ہے تو پھر غم و غصہ اور نفرت ختم؟
ہمیں مطمٰن ہونا چاہیے؟
کیونکہ جب سوچ غم و غصہ اور نفرت کی حد ،یہاں پہ ہو، تو پھر وہی پہ ہی ختم بھی ہوگا۔
اور پاکستان کا وطیرہ رہا ہے اور ایسا کرنا ممکن بھی ہے کہ فرد جو بھی ہو، جتنا بڑا وفادار پاکستانی ہو، اسے ریاست پاکستان کیلئے قربانی کا بکرا بنانے میں کوئی ہار محسوس نہیں کرتے۔
دشمن سے انتقام کس طرح اور کیسے، قومی زمہداریاں اور مقصد کا تعین کس طرح ،کیسے ؟
خود اپنی ہی مرضی کے مطابق شاید حقیقتوں سے انحراف ہوگا۔
دشمن کی جبر تشدد ہر ظلم و بربریت کے چھوٹے یا بڑے واقع کو دشمن کے خلاف قومی تحریک اور قومی مقصد و قومی آزادی کے حق میں موڑنا اور استعمال کرنا ایک بہترین سمت کی جانب راغب کرنا اس وقت ممکن ہوگا جب سوچ و فکر میں ابہام اور تضاد موجود نہ ہو۔
جہاں تضاد اور ابہام موجود ہو، وہاں دشمن کی جانب سے دئیے گئے بلوچوں کو ہر زخم سے کوئی قومی فائدہ حاصل نہیں ہوگااور قبضہ گیر چاہتا بھی یہی کہ ہر ناانصافی، ظلم، جبرو بربریت کاواقعہ جلد از جلد سرد خانے میں یا پھر وہ حقیقی رخ اختیار نہ کرے جس سے پاکستان کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو،اور بلوچ قومی تحریک منظم اور استحکام کی شکل اختیار کرے۔
نواب اکبر خان بگٹی کی بلوچ قومی ریاست کی بحالی اور تشکیل یعنی آزاد بلوچستان کی حصول کیلئے دشمن کے خلاف مسلح جدو جہد اور پاکستان ریاست کے ہاتھوں شہادت اس کو شازیہ کیس، و صوبائی حقوق اورصوبہ خودمختاری سے تشبیہ دینا عین چند دن بعد کوئٹہ میزان چوک پر پارلیمانی قوم پرستوں کا جلسہ عام پارلیمنٹ کو خیرباد کرنے کا اعلان پارلیمانی نشستوں سے استعفیٰ و ڈرامہ قلات میں شاہی جرگہ اور جمیل بگٹی کی طرف سے قتل کاکیس پاکستانی عدالتوں میں دائرکرنا قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ یہ سب کے سب ایک تو اپنی اصل قومی ذمہداریوں سے انحراف اور دوسرا اصل حقیقت بلوچ قومی جوش جذبہ قومی بیداری اور پاکستان ریاست کے خلاف نفرت کو محدود اور سرد خانے میں ڈالنے اور منتشر کرنے کی شعوری فیصلے تھے۔
اس لیے تو اکبرخان کی شہادت سے جس طرح قومی تحریک کو ایک نئی شکل اور شعوری رخ مل سکتا ہے وہ نہیں مل سکا اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟
قیادت کی فقدان؟
صلاحیتوں کی کمی یا غیر ذمہداری و لاپروائی؟
آج تک سوالیہ نشان ہے۔
تو پھر آج بھی بلوچستان کی طول و عرض مکران کوہلو ڈیرہ بگٹی بولان قلات اور نوشکی سمیت دیگر علاقوں میں ہر روز پاکستانی فوج کی جانب سے بلوچوں پر فوجی یلغار بمباری و بلوچوں کی نسل کشی و گرفتاریوں اور مسخ شدہ لاشوں کا ناختم ہونے سلسلہ جاری و ساری ہے۔
کیا پھر اس موجودہ بلوچوں کے خلاف پاکستانی یلغار اور ان کی پاداش میں بلوچوں کی نفرت غم و غصہ اور جذبہ بشمول قومی تحریک ایک نیا رخ اور شعوری شکل اختیار کررہا ہے؟
یا ابھی تک صرف اور صرف ظلم ظلم کی داستان بیان کرنا، رونا ،دھونا،یو این سے مداخلت کی اپیل ،انسانوں سے انسانیت کے ناطے کچھ کرنے روکنے کی فریاد کرنا یہ بھی ضرور تحریک کا ایک معمولی جز ہے۔لیکن جب تک بلوچ قومی نفرت غم و غصہ اور جذبہ کو پاکستان ریاست کے خلاف اور قومی آزادی کی فکر کے ساتھ شعوری بنیادوں پر عملی رخ کے ساتھ استوار نہیں ہوگا اس وقت تک صرف اپیل رونے دھونے پیٹنے سے اندھا اور بہرہ یو این مہذب ،شریف اور فرمانبردار دنیا ٹھس سے مس نہیں ہوگا۔
اس لئے یہ قابل غور نقطہ ہے کہ ہمیں کیا کیسے اور کس طرح کام کرنا ہوگا جو دنیا کی توجہ کے ساتھ ساتھ اپنی قوم میں اہمیت ہو
تو اس کیلئے صرف اور صرف اگر ضرورت ہے تو
میدان عمل میں سائنسی و شعوری بنیادوں پر بلوچوں کو ایک بلوچ قومی قوت کی ضرورت ہے، تب جاکر تمام ناممکنات آخر کار ممکنات میں تبدیل ہونگے۔