لاپتہ افراد شہدا کے بھوک ہرتالی کیمپ کو 3165 دن ہوگے اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بی ایس او آزاد کے ایک وفد لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ وفد سے کہا کہ حکومت نے بھی بلوچستان میں پاکستانی فورسز کی اُسی سابق پالیسی کے تحت سیاسی کارکنوں کو جبراً اُٹھا کر غائب کرنے کی انسانیت سوز کاروائیاں اب بھی شدت کے ساتھ جاری ہیں ۔
آٹھ مارچ کو بی ایس او آزاد کے چیئرمین واجہ زاہد کرد بلوچ عرف بلوچ خان کو خفیہ اِداروں نے کوئٹہ سے جبراً اغواء کر کے لاپتہ کردیا جو ابھی تک آئی ایس آئی کی خفیہ عقبویت خانوں میں لاپتہ ہیں ۔
بلوچ سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں پیھنکنے کی کارروائیاں اب بھی جاری ہیں – اب تو بلوچستان میں متعین فورسز بلوچ نسل کشی کاروائیوں میں وسعت و شدت لائی ہوئی ہے ۔
نئی حکمت عملی کے تحت فورسز ایف سی کسی دیہات پر فضائی و زمینی حملہ کرکے گاؤں کی پوری آبادی کو گولہ باری آتشزدگی لوٹ مار کانشانہ بناتی ہے اور پھر ایف سی اور فورسز کا ترجمان میڈیا کے سامنے حملے کی زمہ داری قبول کرتے ہوئے حملہ کا نشانہ بننے والے کاوں کو کسی مسلح پسند بلوچ تنظیم کا کیمپ شہید ہونے والے نہتے بلوچوں کو سرمچار بناکر جھوٹ کے سہارے اپنے جنگی جرائم پر پردہ ڈالتا ہے ۔
اس جھوٹ کا پردہ چاک کرئے کے لیئے غیر جانبدار صحافت ناپید ہے مقبوضہ بلوچستان میں ذرائع ابلاغ کی موجودگی کوئٹہ پریس کلب تک محدود ہے ، اندرون بلوچستان کو خفیہ اداروں اور پاکستانی فورسز نے صحافیوں کے لیئے نوگو ایریا بنادیا ہے – ایف سی اور فورسز کی جنگل سے آذاد اطلاعات فراہم کرنے والے صحافیوں کی خفیہ اداروں کے ہاتھوں اور انسانی حقوق کی تحفظ کے لیئے سرگرم کارکنوں کی خفیہ اداروں کے ہاتھوں بڑے پیمانے پر قتل کے واقعات نے آزاد صحافت کے حوالے سے خوف کا ماحول اور ایک وسیع خلا پیدا کردی ہے ۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ہم پاکستان کے ہاتھوں نسل کشی کا شکار ہیں- اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کو نسل کشی میں ایک سماعت کے دوران ٹی کمار کو کہ ایمنٹی انٹرنیشنل امریکہ کے بین الاقواتی ایڈوکریسی ڈائرکڑس نے پاکستانی حکومت پر بلوچ عوام کے خلاف جبری گمشدگیوں تشدد اور قتل کی ایک منطم پالیسی کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا – کمار نے اس معاملے میں عالمی برادری پر بھی مذمت کی