اگر چین اپنے سامراجی عزائم سے باز نہیں آیا تو انہیں بلوچ قوم کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا – ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ
بلوچ قوم پرست رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ بلوچستان پر پاکستان کی قبضہ گیریت کو محکم کرنے، بلوچ قومی وسائل کی لوٹ مار اور استحصال کے لئے چین پاکستان اشتراک عمل، بے پناہ سرمایہ کاری بلوچ قوم کے لئے ناقابل قبول ہے اور ہم ہر طرح سے چینی منصوبوں کے خلاف مزاحمت جاری رکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ چین کی بلوچ سرزمین پر پاکستان کے ساتھ ساجھے داری اور پاکستان کو جدید عسکری ٹیکنالوجی اور سازو سامان دینا بلوچ نسل کشی میں چین کے کردار کو بھیانک اور قابل نفرت بنا چکا ہے اور اسے بلوچ قوم قطعاً معاف نہیں کرے گی۔
چین پاکستان تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چین جس غلامی اور استحصالی دور سے گزرا ہے اسے بلوچ سرزمین، وسائل اور شناخت کا احساس ہونا چاہئے لیکن چین اپنے ماضی قریب کو بھول کر ہماری غلامی اور استحصال میں پاکستان کے ساتھ شریک جرم بن چکا ہے۔ چین کو اپنے ماضی کے طویل تجربوں کو مدنظر رکھ کر اس امر کا اندازہ ہوگا کہ آزادی کی تحریکیں کتنی طاقت ور ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر اللہ نذر نے کہا کہ سی پیک سمیت کئی چینی منصوبوں کی حفاظت کے نام پر بلوچستان میں نہ صرف پاکستانی فوج کا بہت بڑا حصہ تعینات ہے بلکہ فوج اور خفیہ ادارے ظلم و جبر کی حدود پھلانگ چکے ہیں۔ مگر تمام تر ظلم و جبر کے باوجود پاکستان اور چین کے منصوبے ابھی تک ہوا میں معلق ہیں۔ یہ امر وضاحت کا محتاج نہیں ہے کہ چینی منصوبوں کو بلوچ قوم کی زبردست مزاحمت کا سامنا ہے۔ ہم چین کو خبردار کرتے ہیں کہ بلوچستان ایک مقبوضہ اور متنازعہ خطہ ہے یہاں بلوچ قوم کی مرضی و منشا کے بغیر کوئی منصوبہ کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکتا۔ اس کے باوجود چین یہاں سے انخلاء نہیں کرتا ہے تو چینی منصوبوں کے لئے بلوچستان ایک قبرستان بن جائے گا اور چینی سرمایہ یہیں ہمیشہ کے لئے دفن ہوکر رہ جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم کے خلاف پاکستانی مظالم جس نہج پر پہنچ چکے ہیں، اس میں چین کا کردار واضح طور پر نظر آتا ہے۔ ایسے حالات میں چین سمیت کسی بھی ملک کا پاکستان کے ساتھ شراکت داری بلوچ نسل کشی میں ساتھ دینے اور جنگی جرائم میں شریک کار ہونے کے مترادف ہے۔ بلوچستان ایک لاوارث سرزمین نہیں ہے کہ پاکستان کسی بھی سامراجی قوت کے ساتھ مل کر بلوچستان کو ہمیشہ کے لئے اپنے زیر نگین رکھے گا اور بلوچ قوم اور قومی تشخص کو صفحہ ہستی سے مٹا دے گا بلکہ بلوچ قوم نے پاکستانی قبضے کے خلاف بیش بہا قربانیاں دی ہیں جو ہنوز جاری ہیں۔ اگر چین اپنے سامراجی عزائم سے باز نہیں آیا تو انہیں بلوچ قوم کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے پاکستانی مظالم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں سے جاری فوجی آپریشن میں پاکستانی فوج نے چالیس ہزار سے زائد بلوچوں کو غیر قانونی حراست اور خفیہ زندانوں کے عقوبت خانوں میں بند کر رکھا ہے۔ دس ہزار کے قریب بلوچوں کو فوجی آپریشن، دوران حراست تشدد، مارو اور پھینکو پالیسی اور جعلی انکاؤنٹر میں قتل کرکے شہید کیا گیا ہے۔ ان مظالم میں چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) منصوبے کے معاہدے کے بعد انتہائی حد تک تیزی لائی گئی ہے۔ اس منصوبے کے روٹ پر آباد مکینوں کو فوجی آپریشن کے ذریعے ہجرت پر مجبور کیا گیا ہے۔ کئی گاؤں صفحہ ہستی سے مٹائے گئے ہیں۔ ان کے مکین بلوچستان اور سندھ کے مختلف علاقوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک بڑی تعداد افغانستان اور دوسرے ممالک میں پناہ گزین کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں نیشنل ایکشن پلان اور ایپکس کمیٹیوں جیسے بلوچ کش منصوبوں کی منظوری بعد خونی آپریشن کروانے اور حصہ لینے والوں کا بھی بلوچ قوم احتساب کرے گی اور وہ ان جنگی جرائم اور بلوچ نسل کشی میں برابر شریک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج بلوچ ہجرت، دربدری اور بے پناہ مظالم کا سامنا کررہے ہیں اور وہ یہ تمام قربانیاں اپنے عظیم وطن کی آزادی کے لئے دے رہے ہیں۔ ان قربانیوں کا حاصل و نتیجہ آزاد بلوچستان ہی ہوگا۔ دنیا کو اس امر کا احساس کرنا چاہئے کہ بلوچستان کی آزادی کے بغیر اس خطے میں امن لانا ایک خواب ہی رہے گا کیو نکہ چین کے سامراجی عزائم اور پاکستان کی دہشت گردی کے فروغ پر مبنی پالیسیاں دنیاکے لئے مزید خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں جس کا نقصان بلوچ قوم پہلے ہی سے اٹھا رہے ہیں لیکن عالمی دنیا بھی ان سے محفوظ نہیں رہے گی۔