بلوچ، ریاستی فوج و چینی کمپنیاں – وش دل زہری

281

بلوچ، ریاستی فوج و چینی کمپنیاں

وش دل زہری

دی بلوچستان پوسٹ

سامراج کا ہمیشہ یہ اصول رہا ہے، پہلے پہل وہ مقامی لوگوں کے سیاسی، قبائلی، مذہبی اور سماجی رہنماؤں کو اپنے زیر کنٹرول لانے کیلئے تمام تر حربے استعمال کرتا ہے، اور ناکام ہونے کے صورت میں دولت اور لالچ کا جال بچھا کر ایک شاطر شکاری کی طرح اِنہیں اپنے گرفت میں لینے کی کوشش میں مصروفِ عمل رہتا ہے۔

اسی اثناء میں لالچی، خود غرض اور انا پرست رہنماء اکثر اپنے قوم کو اندھیرے میں رکھ کر اپنے سستی شہرت پانے کیلئے قوم کو ملگجی سی روشنی دکھاکر دھوکے میں رکھتا ہے تاکہ آنے والے ادوار میں سرمایہ کاری اور استحصالی منصوبوں کیلئے بنے ایندھن سے چلنے والے مفت کے ملازم پیدا کیئے جا سکیں،جس کی بھاری رقم وصول کرکے عیش و عشرت کی زندگی گزار سکیں. اور موجودہ پارلیمانی سیاست اس بات کا عکاسی کرتا ہے۔

دنیا میں مختلف قوموں کی تاریخ آج سب کے سامنے عیاں ہیں، اُن کے تاریخی پس منظر کو دیکھ کر دیگر زندہ قوموں نے اپنی حالت زار سدھارنے کی کوشش میں دن رات ایک کرکے کافی حد تک کامیابی حاصل کر چکے ہیں، مگر اس سرمایہ دار اور جاگیردارانہ قوتوں کے زد میں پسا ہوا ایک غلام قوم ہمارا بلوچ قوم بھی ہے۔ جنہوں نے دنیا کے تاریخی پس منظر سے سیکھنے کے بجائے خود دوسروں کیلئے ایک انتہائی شرمناک تاریخی سبق بننے کے در پہ ہیں۔

دنیا میں سونا، چاندی، گیس، پٹرول اور قدرتی وسائل سے مالا مال خطوں کے ان ذخائر پر سودا گر اور رال ٹپکاتے استحصالی کمپنیوں کا ہمیشہ نظر رہا ہے، تاریخ گواہ ہے کمزور اقوام ہمیشہ سوداگر، سرمایہ کار اور سامراج کی ناروا رویوں کی وجے سے اپنے ہی سر زمین پہ اجنبی بن کر نوآباد قوتوں کے نئی تہذیبی شگوفے کھلانے کے دھوکے میں اپنی زبان، ثقافت، مذہب اور بقاء کو روند ڈالتے ہیں۔ جس کا واضح ثبوت ریڈ انڈین، ایبوریجنل اور آسٹریلیا کے مسروقہ نسلیں ہیں جن سے زندگی کے سارے حق اس لئے چھین لیئے گئے کیونکہ ان کے سرزمین میں استحصالی کمپنیوں کا مفاد پوشیدہ تھا اور وہ لوگ اپنے پہاڑ اور زمینوں کو اپنے لئے مقدس سمجھتے تھے.

آسٹریلوی حکومت نے تعلیم کے نام پر ایبوریجنل باشندوں سے ان کی نسلیں چھین کر برطانوی سامراج کے حوالے کردیا۔ جس سے ان کی زبان، ثقافت اور تہذیب چھین کر انہیں اس قدر غلام بنا دیا گیا کہ وہ لوگ برطانوی اشرافیہ کے گھروں میں نوکری کرنے پر مجبور ہو گئے اور اُنہیں جنسی طور بھی حراساں کیا گیا، آسٹریلیا کے ایبوریجنل باشندوں کے ڈیڈ سو کے قریب لگ بھگ بولی جانے والی زبانیں اسی نئی تعلیمی لالچ میں اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں.

وہاں کے لوگوں پر اس قدر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنے کے بعد صرف اُنہیں اس قابل سمجھا گیا کہ آسٹریلیا کا وزیراعظم ان سے معافی مانگنے کیلئے ایک کاغذی معافی نامہ تقریری انداز میں بناکر پیش ہوا. جیسے ہمارے یہاں پاکستانی پارلیمنٹرین بھٹو، نواز شریف اور عمران خان اپنے تقریری یا پیغامی خط کے شکل میں بلوچ قوم سے معافی کا اظہار کرچکے ہیں، اور ایبوریجنل باسیوں کی طرح بلوچ قوم نے بھی ایسے معافی ناموں کو اپنے پرانے زخموں کو مندمل کرنے کے مترادف سمجھ کر نظر انداز کر چکے ہیں، جس طرح آسٹریلوی مسروقہ نسل نے وزیراعظم کیون رڈ کے معافی نامہ کے متن کو دیکھے بغیر اس عمل کو اپنے زخموں پر نمک چھڑکانے کے مانند سمجھ کر رجیکٹ کردیا تھا.

بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ریاستی اور بیرونی سرمایہ دار کمپنیوں نے پہلے سے اپنا قبضہ بحال رکھا ہوا ہے، جن میں ریکوڈک، گوادر، سوئی اور حبکو جیسے اور کئی استحصالی پراجیکٹس شامل ہوتے ہیں۔ جن کا سارا مالیت ریاست کے خزانوں میں جمع ہوتے ہیں جبکہ ہمارے سرزمین سے حاصل کیئے گئے مالیت کے بدلے ہمیں ریاست سے ہمشہ کیلئے خاموش کرنے کی گولیاں اور مسخ لاشیں ملتے آئے ہیں اور آج بھی یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے.

حالیہ دنوں میں الیکشن کا لبادہ اوڑھ کر اسی آڑے ریاستی کمپنیوں نے قدیم برطانیہ سامراجی تاریخ کو پھر سے دہرانے کیلئے بلوچستان کے دوسرے علاقوں کا رُخ کیا ہے، جن میں قلات کے دیگر چھوٹے دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ زہری خضدار بھی شامل ہوتا ہے.

آج قبائلی رنجشوں میں مبتلا علاقہ زہری ریاستی فوج اور چائینیز استحصالی کمپنیوں کا اہم مرکز بن چکا ہے، لیکن زہری میں بسنے والے قبائل پرستی میں گھری ہوئے قوم خواب غفلت میں مگن سوئے ہوئے نظر آتے ہیں.

یہ وہی قبیلے اور طائفیں ہیں جو ان پہاڑوں پہ آپس کے کُشت و خون میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں، ایک دوسرے پر بانٹے ہوئے کوہ و جبل اور ان چراگاہوں سے کوئی غلطی سے بھی گذرے، تو اُس جبل کے حقیقی مالکان اس کے لہو پی کر چین کا سانس لیئے ہیں. اسی قوم و قبیلے کے کسی بھی فرد کو اجازت لئے بغیر ان پہاڑوں پہ جانے کی اجازت نہیں ہے. اس بات پر چرچا کرنے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں آپ اپنے سرداروں کے تصفیوں اور فیصلوں کا جائزہ لیں، تو چالیس فیصد جرگے انہیں پہاڑوں پر کُشت و خون کی وجہ سے بلائے جا چکے ہیں، اور آج انہی پہاڑوں کا چین کے سودا گر اور سرمایہ کار پنجابی ریاست سے سودا لگا کر بلوچ قوم کی اثاثوں کو عالمی منڈیوں میں بیچ کر اپنی معیشت کو بڑھانے کی کوشش میں ہیں.

زہری اور قلات کے درمیان پہاڑی سلسلوں سے ریاستی فوج اور چینی مائنِنگ آرگنائزیشنز اس سرزمیں میں موجود ذخیرہ تیل، گیس اور دیگر قدرتی وسائل ڈھونڈنے کا سلسہ شروع کر چکے ہیں۔ نیچارہ پنداران سے لیکر تراسانی ملغوے تک کوہِ ٹاکاری سے لیکر میروزئی دشت تک فوج نے سارے علاقوں کو اپنے قبضے میں لے کر اپنے آسان سفر کیلئے راستہ بنانے کا کام بھی تیزی سے شروع کر دیا ہے. اور زہری کے مختلف علاقوں میں اپنے حواریوں کے مدد سے کئی فوجی کیمپ لگانے کیلئے زہری کے مختلف علاقوں کا بھی معائنہ کر چکے ہیں، جس میں چشمہ کے پہاڑی علاقے بھی شامل ہیں.

گذشتہ چند مہینوں سے چینی انجینئیرز اور پاکستانی فوج کے ان علاقون کی طرف آنے جانے کا سلسلہ نظر آرہا ہے۔ جن کی وجہ سے سوہندہ کے قدرتی چشمے سے ابھرتے ہوئے پانی پر بھی ریاستی فوج نے مکمل قبضہ کرکے علاقائی لوگوں کیلئے اس تفریحی حدود کو مکمل نوگو ایریا قرار دے دیا ہے، اور کوہِ ٹاکاری میں چینی انجینئیرز اور فوج کے گاڑیوں کے حادثے میں فوجی اہلکار اور چینی مائننگ کمپنیوں کے انجینئرز کے مرنے کا بھی خدشہ ظاہر کیا گیا ہے.

اگر یہ سلسلہ ایسا چلتا رہا قوم کی خاموشی کا روزہ ایسے برقرار رہا تو اس قوم کو ترقی کے نام پر غلامی کے اس درجے پر لاکر کھڑا کر دیا جائے گا، جیسے ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھارتی باشندوں کو لا کھڑا کر دیا تھا۔

زہری کے قبیل پرست بزرگوں سے یہی التماس کروں گا کہ کبھی فرصت میں بیٹھ کر ٹھنڈے دماغ سے سوچ لینا کہ آنے والے نسلیں تمہیں کن الفاظ میں تاریخ کے پنوں میں پڑھ کر یاد کریں گے.

اس لاوارث دھرتی کے نوجوانوں کیلئے بس اتنا کہوں گا کہ کبھی کرکٹ، فٹبال اور منشیاتی سوسائٹی سے تھوڑی دیر کیلئے نکلنے کی فرصت ملے تو جاکر شاہموز ندی کنارے بیٹھ کر محسوس کر لینا کہ اس ٹھنڈی گہوش میں کن عظیم شہیدوں کے لہو کی خوشبو مہکتے ہوئے ہزاروں ارمان بیان کرکے گذر جاتا ہے۔