میرے نقطہ نظر کے مطابق – برزکوہی بلوچ

550

نوشتہِ دیوار
میرے نقطہِ نطر کے مطابق
تحریر: برزکوہی بلوچ

جب ہم بلوچ قوم کی تقسیم در تقسیم، ایک دوسرے پر غم و غصہ اور آپسی عدم برداشت کو محسوس کرتے اور دیکھتے ہیں تو پھر اس کو آسان الفاظ میں بلوچ کی ضدی اور ہٹ دھرم سرشت کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں یا پھر کہتے ہیں بس بدبخت بلوچ قوم کا مقدرہی ایسا ہی ہے، مگر یہ کہنے کی جسارت ہر گز نہیں کرتے کہ ہم خود قوم کا بیڑہ اٹھانے والے نالائق، علم سے عاری اور پسماندہ خیالات کے مالک ہجوم ہیں،پھر پوری قوم کو بدبخت ضدی اور اناپرست کیوں کہیں؟

فرض کریں بلوچ قوم اسی طرح ہی ہے جس طرح ہم اسکی تاویل کرتے ہیں ،تو پھر قوم کو اس منفی سوچ کے گرداب سے نکالنے کا ذمہدار کون؟کیا دنیا کے باقی غلام اقوام جو اس غلامی کے ذلت بھرے دلدل میں پھنسے ہوئے تھے تو ان کی سوچ مختلف تھی؟مقدر بدبختی ضدی اور اناپرستی یا باعلم و باشعور تھے؟میرے دانست کے مطابق سب کی حالت بلوچ سے بھی بدتر رہا ہے تو کیا کوئی آفاقی و قدرتی قوت نازل ہوکر ان قوموں میں علم و شعور پھونک کر انہیں شعور و دانش بخش کر ان کی مقدر بدل دی؟

اگر جواب نفی میں ہے تو پھر وہ انکی قومی تحریکوں کا ہی کمال، خاص کر لیڈرشپ کی کرشماتی و کراماتی اور اخلاقی اثر ہی تھا جو ایسے قوموں کو بدترین تاریکیوں اور دلدل سے نکال کر روشن و تابناک مستقبل سنوار نے کے قابل بناسکے۔ پھر یہاں کس منطق کی بنیاد پر تمام تر بدبختیوں عدم برداشت ضد و اناپرستی کی جڑیں اور موردالزام بلوچ قوم کو ٹھہرایا جاتا ہے ؟ اور یہ کون سے انصاف کا ترازو ہے؟

اب جہاں تک بلوچ قومی تحریک یا بلوچ قیادت کا تعلق ہے تو ہم اگر اس دلیل پر اتفاق اور مطمئن رہیں کہ قیادت اور قومی تحریک علم و عمل کے حوالے سے بلوچ قوم سے کئی گنا آگے کھڑا ہے تو پھر ہم کل بھی غلطی پر تھے اور آج بھی غلطی پر ہونگے ۔

آج قومی تحریک بشمول بلوچ قیادت جس مقام پر کھڑا ہے یعنی دشمن کو جس موثر اور ہنرمندانہ انداز میں جواب دینے کا تقاضہ یا پست سطح سے ہٹ کر وسیع پیمانے پر بلوچ قوم میں قومی غلامی کے خلاف شعور و آگاہی ،احساس ،ذہنی و سیاسی تربیت کی کمی کے ساتھ بلوچ دشمن منصوبے گوادر میگاء پروجیکٹ سی پیک، سیندک اور ریکوڈک و دیگر منصوبوں کو ناکامی سے دوچار کرانا تھا وہ نہیں ہورہے ہیں بلکہ اس وقت تک آسانی کے ساتھ ان بلوچ کش منصوبوں پر پیش رفت اور دشمن کو کامیابی بھی مل رہی ہے اور سب سے اہم اور سنجیدگی سے سوچنے اور دلخراش و کربناک المیہ یہ ہے کہ خطے کے لحاظ سے اہم ،گل زمین بلوچستان عالمی رسیٰ کشی کی نظر ہونے کے باوجود بھی جس طرح بلوچ قومی تحریک کو عالمی سطح پر پذیرائی و مدد حاصل ہورہی ہے وہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ تو وجوہات کے تمام تر تانے بانے قومی تحریک پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں کیوں؟

آج بلوچ قوم کیسے اور کس طرح دنیا کو اپنی مجموعی رائے پیش کررہا ہے کہ بلوچ قوم کیا ہے؟ اور کیا چاہتا ہے؟کیا نہیں چاہتا ہے؟دشمن کے خوف و دہشت کے سائے تلے اگر خاموشی سے دشمن سے نفرت تحریک سے حمایت کیا قومی تحریک کیلئے علاقائی اور عالمی سطح پر کارگر ثابت ہوگا؟

کیا دنیا کی باقی ماندہ جبر و تسلط کے شکار قوموں پر دشمن کا خوف و دہشت طاری نہیں تھا؟اس کے باوجود سڑکوں گلیوں اور میدانوں میں قوم کے نوجوان بوڑھے بچے اور خواتین کا باہر نکلنا اور دنیا کے کونے کونے تک اپنا موقف و پیغام پہنچانا قدرتی و آفاقی صلاحیت یا قومی تحریک اور قومی قیادت کی صلاحیت و لیاقت تھی؟

آج بلوچوں کے عظیم شہداء بھی اگر جشن و جلوس اور آزادی کی نعروں کے ساتھ دفن ہوتے اور کم از کم ایدھی سینٹر والوں کی نظر ہونے کے بجائے ان کے لواحقین کو مل جاتے تو وہ بھی غنیمت سے کم نا تھا۔

یہ بھی تحریک کا ضرور ایک مرحلہ ہے لیکن ضررورت اس امر کی ہے وجوہات کو تلاش کرنا اور صحیح طریقے سے سمجھنا ضروری ہے، میرے نقطہ نظر میں قومی تحریک سے وابستہ لوگ اور قیادت کی سوچ علم و عمل کی سطح کم از کم عام انسان کی سوچ کی سطح سے بلند ہونا چاہیے ،ورنہ ان تمام تلخ حقائق کا سامنا آگے بھی ہوگا،کیونکہ سوچ علم و عمل کی سطح سنجیدگی اور پختگی عام لوگوں کا ہو تو پھر تحریک کی رفتار اور سطح ایسا ہی ہوگا۔ بنیادی اور اہم مسئلہ علم و عمل لاپتہ قومی تحریک اور قومی قیادت میں۔