دی بلوچستان پوسٹ انٹرویو
قادر مری اس وقت بلوچ تحریک آزادی کے بزرگ ترین رہنماوں میں سے ایک ہیں اور ایک تجربہ کار گوریلا کمانڈر ہیں، وہ گذشتہ پچاس سال سے زائد عرصے سے بلوچستان کی آزادی کے جنگ کا حصہ ہیں۔ قادر مری کا شمار مرحوم نواب خیربخش مری کے با اعتماد رفقاء میں ہوتا تھا۔ ستر کی دہائی میں شروع ہونے والی بلوچ تحریک ہو، بھٹو دور حکومت میں ایران و پاکستان کی بلوچستان میں مشترکہ وسیع فوجی آپریشن ہو، بلوچوں کا افغانستان ہجرت ہو یا پھر واپسی اور ایک نئے تحریک کی بنیاد اور بلوچ لبریشن آرمی کے نام سے دوبارہ گوریلا جنگ کا آغاز ہو۔ قادر مری اس پورے دورانیے کے ایک اہم کردار رہے ہیں۔ وہ خود خفیہ اداروں کے ہاتھوں اغواء ہونے کے بعد دو سال اذیت بھی برداشت کرچکے ہیں، اس دوران اپنے خاندان کے درجنوں افراد کی شہادت بھی دیکھ چکے ہیں۔
جب 2010 میں بلوچ لبریشن آرمی اندرونی خلفشار کا شکار ہوا، تو مرحوم نواب خیربخش مری نےاپنے قابلِ اعتماد ساتھیوں کے ساتھ خود کو بی ایل اے سے الگ کرکے یو نائیٹڈ بلوچ آرمی کا نام دیا، ان ساتھیوں میں قادر مری بھی شامل تھے۔ تب سے قادر مری یو بی اے کے سینئر کمانڈر کے حیثیت سے بلوچ آزادی کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔
گذشتہ دنوں دی بلوچستان پوسٹ کے نمائیندہ خصوصی نے قادر مری سے بلوچستان میں ایک نامعلوم مقام پر ملاقات کی اور بلوچ سیاست، مزاحمت اور بلوچ تنظیموں کے آپسی تعلقات کے بابت انکی رائے جانی۔ جو تحریری شکل میں دی بلوچستان پوسٹ میں شائع کی جارہی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: آپ پچاس سال سے تحریک آزادی کا حصہ ہیں اور جہدکاروں کی تیسری نسل دیکھ رہے ہیں۔ اس پورے دورانیے پر ایک نظر ڈال کر آپ دیکھتے ہیں تو آپکو بلوچ تحریک کا ماضی سے مستقبل کا یہ بتدریج سفر، مثبت یا پھر منفی سمت میں گامزن دکِھائی دیتی ہے؟ ایسا تو نہیں تبدیلی شاید ٹیکنالوجی میں آئی ہو لیکن بلوچ وہیں کا وہیں کھڑا ہے؟
قادر مری: میرے نقطہ نظر کے مطابق بلوچ قومی تحریکِ آزادی مثبت سمت میں جارہی ہے، جہاں تک ٹیکنالوجی کا تعلق ہے، تو بلوچ اس سے ضرور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ میرے نزدیک، اب بلوچ قوم فکری، سیاسی و نظریاتی طور پر بہت زیادہ پختہ ہوچکے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: یہ طویل پرکٹھن جنگ، وسائل میں تنگدستی، طاقتور دشمن، اپنوں کی ستم ظریفیاں بلوچ یہ جنگ کیسے جیت سکتا ہے؟
قادر مری: تحریک آزادی کی جنگ پرکٹھن اور مشکل ضرور ہےلیکن تنگدستی اور طاقتور دشمن بلوچ قومی تحریک آزادی کیلئے کوئی مشکل نہیں۔ اب بلوچ قومی نظریات پختہ ہوچکے ہیں۔ دشمن کو شکست دینا کوئی مشکل بات نہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: ایک عمومی رائے جِسے دشمن اور کبھی کبھی دوست بھی عام کرتے آئے ہیں کہ ” یہ مری تو قبائلی ہیں، اپنے سردار کی خاطر لڑرہے ہیں” اسی تاثر کو آپ یعنی قادر مری کے بارے میں بھی کافی ابھارا گیا ہے کہ ” قادر مری ایک کٹر قبائلی شخص ہے، بس سردار کے ساتھ ہے” آپ اس تناظر میں قبائیلیت اور قومپرستی کے فرق اور مابین تعلق کو کیسے واضح کریں گے؟
قادر مری: بلوچستان کی سرزمین پر بلوچ واقعی قبیلوں کی صورت میں آباد ہیں لیکن بلوچ قوم نظریاتی طور پر آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کیا مری قبیلہ اپنے سردار کی خاطر یہ جنگ لڑرہا ہے؟ کیا مری قبیلے کا نواب خیربخش مری اپنے قبیلے کی خاطر جنگ لڑرہا تھا یا پھر پوری بلوچ قوم کی آزادی کی جنگ میں سر فہرست تھا؟ بلوچ قومی تحریک آزادی میں مری یا کسی اور قبیلے کی سیاسی جنگ کو قبائیلیت کا رنگ دینا دشمن کی پالیسی ہے۔ اگر کوئی دوست، فرد یا قبیلے کی جدوجہد کو قبائلی بنیادوں پر دیکھ رہا ہے تو پھر شاید وہ اس کی نظریاتی نا پختگی ہے یا پھر وہ نا تجربہ کاری کی وجہ سے یہ سمجھ رہا ہے۔ یہ جنگ سیاسی ہے اور بلوچ قوم کے بقا کی جنگ ہے، اس جدوجہد کا قبائیلیت سے کوئی تعلق نہیں، اگر یہ لوگ قبائلی ہوتے تو پھر اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات پر کام کرتے نا کہ پوری قوم کی آزادی کیلئے لڑتے۔
کیا میں یعنی قادر مری نے گذشتہ پچاس سال اپنے قبیلے کی خاطر جنگ لڑی؟ کیا میں نے بلوچوں کو قبائیلیت کی طرف راغب کیا یا پھر بلوچ قومی تحریک کا درس دیا؟ یہ سب بلوچ قوم کے سامنے عیاں ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: جب موجودہ تحریکِ آزادی کا آغاز ہوا، تو آپ خود بی ایل اے سے تعلق رکھتے تھے اور اسی کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرتے رہے، لیکن بعد ازاں آپ ان رہنماوں میں شامل ہوئے جنہوں نے بی ایل اے سے جدا ہو کر یونائیٹڈ بلوچ آرمی تشکیل دی۔ بی ایل اے کے ہوتے ہوئے، آپ کو یو بی اے بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
قادر مری: واقعی، میں نے بلوچ قومی تحریک آزادی کی خاطر بی ایل اے کے پلیٹ فارم سے کام کیا اوربعد میں بی ایل اے کی قیادت نے نواب خیربخش مری سے نظریاتی و سیاسی اختلافات رکھے، ان اختلافات کی وجہ سے نواب صاحب نے بلوچ قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے صلاح و مشورے کے بعد یونائیٹڈ بلوچ آرمی تشکیل دی۔
دی بلوچستان پوسٹ: بی ایل اے سے الگ ہونے کے علاوہ آپ اور آپکی تنظیم پر ایک طبقے کی طرف سے بار ہا “مڈی چوری” کا الزام لگتا آرہا ہے، یعنی بی ایل اے کے جنگی وسائل پر قبضہ کرنے کا، ان الزامات کی حقیقت کیا ہے؟
قادر مری: میرے اور میرے تنظیم کے پاس کسی کی ذاتی مڈی نہیں تھی، میرے پاس جو بھی جنگی سازو سامان تھا، وہ بلوچ قوم کا تھا۔ یو بی اے کے پاس موجود جنگی سازو سامان بلوچ قومی مڈی ہے، کسی فرد یا بی ایل اے کا نہیں ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: آپکی نظر میں بی ایل اے کے ٹوٹنے کی اصل وجہ کیا تھی اور اس عمل کا حقیقی ذمہ دار کون ہے؟
قادر مری: میری نظر میں بی ایل اے کے ٹوٹنے کی اصل وجہ ان کے اندر سیاسی نا پختگی اور نا تجربہ کاری ہے اور اس ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہونے کا اصل ذمہ دار انکی مرکزی قیادت ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: بابا خیربخش مری کے رحلت کے بعد بی ایل اے اور یو بی اے کے بیچ اختلافات کی نوبت جنگ تک آ پہنچی، جس میں جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ اس کی ذمہ داری بی ایل اے یوں یوبی اے پر لگاتی آرہی ہے کہ یو بی اے نے انکے سرمچاروں کے راستے میں مائن کاری کی تھی، اس کی حقیقت کیا ہے؟
قادر مری: جنگ کا پہل بی ایل اے کی طرف سے ہوا تھا، بعد میں اپنا دفاع ہر فرد، ہر انسان اور ہر تنظیم کا حق ہے۔ چاہے وہ مائن کاری کی صورت میں کیوں نا ہو۔
دی بلوچستان پوسٹ: یو بی اے اور بی ایل اے کے بیچ خانہ جنگی یقیناً بلوچ قومی تحریک آزادی کے سیاہ ابواب میں سے ایک ہے، آپ اس وقت بھی یو بی اے کے ایک سینئر کمانڈر تھے۔ کیا یہ خانہ جنگی روکی نہیں جاسکتی تھی؟ کیا آپ خود کو ذمہ دار نہیں سمجھتے کہ باقیوں کی طرح آپ نے بھی اس جنگ کو روکنے کی کافی کوششیں نہیں کئیں؟
قادر مری: میری رائے کے مطابق یو بی اے کے مخلصانہ پالیسیوں کی وجہ سے یہ جنگ طویل ہونے کے بجائے یہاں رک گئی، یو بی اے کے مخلص ہونے کی وجہ سے بی ایل اے اور یو بی اے کے درمیان جنگ کا تصفیہ ہوگیا۔
دی بلوچستان پوسٹ: بی ایل اے اور یو بی اے کے مابین جاری جنگ کی موجود صورتحال اب کس نہج تک پہنچی ہے؟
قادر مری: یو بی اے اور بی ایل اے کے بیچ جنگ کا خاتمہ ہوگیا ہے، یو بی اے پہلے بھی اتحاد کیلئے تیار تھا اور آج بھی آزادی پسندوں کے ساتھ اتحاد کیلئے تیار ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ : آج ہم دیکھتے ہیں کہ بی ایل اے ایک بار پھر ان بحرانوں کا شکار ہوچکی ہے، جسکی وجہ سے پہلے ہی وہ دو حصوں میں ٹوٹ چکا تھا، اب بی ایل اے کی داخلی کشیدگی دوبارہ تنظیم کو تقسیم کرنے کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ آپ بی ایل اے کو درپیش ان حالات کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ کیونکہ اسی طرح کے حالات سے آٹھ سال پہلے آپ بھی گذر چکے ہیں؟
قادر مری: میرے خیال میں، اس مسئلے کو سیاسی اور نظریاتی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔ یہ بی ایل اے کا اندرونی معاملہ ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: آپکی نظر میں حقیقی وجہ کیا ہے اور کمزوری کہاں ہے، جس کی وجہ سے بی ایل اے بار بار ایسے بحرانوں سے دوچار ہوتی ہے؟
قادر مری: بلوچ قوم کے سیاسی مقصد اور بلوچ قوم کی نفسیات سے نا واقفیت کی وجہ سے بی ایل اے ایسے بحرانوں سے دو چار ہورہا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: میڈیا میں جاری آپکے گذشتہ چند پیغامات میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ اتحاد کی ضرورت پر بہت زیادہ زور دے رہے ہیں، اسکی وجہ کیا ہے کہ آپ کو بلوچ تحریک میں اتحاد کی اتنی اشد ضرورت محسوس ہورہی ہے؟
قادر مری: اتحاد کے بغیر ہم اپنے عظیم مقصد آزادی کو حاصل نہیں کرسکتے، بین الاقوامی حالات کی وجہ سے اس وقت بلوچ قوم کو اتحاد کرنے کی سخت ضرورت ہے کیونکہ اب اتحاد کا وقت آچکا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: ہم بلوچ تحریک میں بارہا دیکھ چکے ہیں کہ تمام رہنما ایک ایک کرکے اتحاد کیلئے اپیلیں کرتے ہیں اور ظاھر کرتے ہیں کہ وہ تیار ہیں اور باقیوں کو دعوت دیتے ہیں لیکن اسکے باوجود اتحاد کجا بس تقسیم در تقسیم ہی دِکھائی دیتی ہے۔ اسکی وجہ کیا ہے؟ اگر سب تیار ہیں تو پھر یہ اتحاد ہوتا کیوں نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اتحاد کی یہ دعویں نیک نیتی کے بجائے سیاسی پوائینٹ اسکورنگ ہی ہیں؟
قادر مری: باتیں کرنے اور اپیلیں کرنے سے کچھ نہیں ہوتا، اتحاد کرنے کیلئے نیک نیت عمل کی ضرورت ہے، میری نظر میں کچھ دوست اپنے سیاسی مورچے کو کچھ انچ بلند کرنا چاہتے ہیں، جو ایک سیاسی ریسنگ ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: بلوچ قوم اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتور ریاست کے خلاف برسرِپیکار ہے۔ کیا اس جنگ کا جیتنا ممکن ہے؟
قادر مری: جتنا آپ اس ریاست کو طاقتور سمجھتے ہیں، یہ اتنا طاقتور نہیں ہے۔ بندوق کبھی نظریات کو شکست نہیں دے سکتا لیکن نظریات ہمیشہ سے بندوق کو شکست دیتے آئے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: علاقائی اور عالمی تبدیلیاں تجزیہ کار خیال کرتے ہیں کہ بلوچ کیلئے فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہیں لیکن جائزہ لیا جائے تو بلوچ ان تبدیلیوں سے خاطر خواہ فوائد حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ آپکے خیال میں ایسا کیوں؟
قادر مری: میرے خیال میں علاقائی و عالمی حالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن جب تک بلوچ قوم ایک اتحاد کی صورت میں نا رہیں گے تب تک ہم علاقائی و عالمی حالات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: کچھ تجزیہ کار خیال کرتے ہیں کہ سی پیک بلوچ قوم کیلئے مرگ کا سامان ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچ آزادی پسند اس بابت کوئی موثر مزاحمتی یا سیاسی لائحہ عمل اب تک سامنے نہیں لاسکے ہیں۔ ایک تجربہ کار جہدکار ہونے کے ناطے آپکے خیال میں اس بارے میں کیا لائحہ عمل اختیار کیا جانا چاہیئے؟
قادر مری: ہاں واقعی، سی پیک بلوچ قوم کے وجود کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے۔ بلوچ قوم اپنی جنگی و دفاعی حکمت عملی اپنے سامنے رکھتے ہوئے دو بڑی طاقتوں چین اور پاکستان کے ساتھ شدید مزاحمت کررہے ہیں۔ مسلح اور غیر مسلح دونوں صورتوں میں۔
دی بلوچستان پوسٹ: آپ بحثیتِ ایک فرد قادر مری ایک کیسا آزاد بلوچستان چاہتے ہیں؟ ایک کیسے آزادی کیلئے پوری زندگی لڑتے آئے ہیں؟
قادر مری: میں بحثیت ایک فرد قادر مری بلوچ ایک سوشلسٹ آزاد بلوچستان چاہتا ہوں۔
دی بلوچستان پوسٹ: آپ نے پوری زندگی بلوچ تحریک پر وقف کردیا اور اس وقت آپ بلوچ تحریک کے بزرگ ترین رہنما یا کمانڈروں میں سے ایک ہیں، اس طویل دورانیے میں کیا کوئی ایسی چیز ہے، جِس کا آپکو پچھتاوا ہے یا اسے آپ اپنی ناکامی کہیں گے؟
قادر مری: میری طویل زندگی میں، جو بھی میں نے بلوچ قومی تحریک آزادی کیلئے کام کیئے ہیں، مجھے کوئی پچھتاوا یا ناکامی محسوس نہیں ہوا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: قومی آزادی کے اس طویل جدوجہد میں، یقیناً ہر ساتھی کا بِچھڑنا ایک صدمہ ہے اور آپ نے یقیناً بہت سے دوستوں کے قربانیوں کا زخم سینے پر سہا ہے، کوئی ایسا ساتھی جِس کی کمی آپ کو سب سے زیادہ محسوس ہوتی ہے؟
قادر مری: بلوچ قومی آزادی کی خاطر جو بھی بلوچ پیر، ورنا، ماں، بہن ناپاک ریاست کے ہاتھوں شہید ہوئے ہیں، میرے دل و دماغ میں آج تک ان تمام بلوچ شہداء کی کمی محسوس ہوتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: آپ قوم کے خاص طور پر بلوچ نوجوانوں کے نام کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
قادر مری: میں بلوچ قوم اور اپنی ماوں اور بہنوں خاص کر نوجوانوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ پنجابی ریاست اور انکے حواریوں سے ہشیار رہیں اور مخلصانہ طور پر اپنی پوری زندگی بلوچ قوم کی آزادی کی خاطر وقف کردیں۔