بلوچستان میں انٹرنیٹ سروس معطل، پی ٹی اے نے تصدیق کردی

126

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں انٹرنیٹ اور موبائل سروسز کی عارضی معطلی کی تصدیق کردی ہے۔ پی ٹی اے کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق یہ اقدام حکام کی ہدایات پر کیا گیا تاکہ علاقے میں امن و امان کو یقینی بنایا جا سکے۔

یاد رہے کہ حالیہ حکومتی فیصلے کے تحت گوادر، کیچ، پنجگور، خضدار، زیارت، قلات، بولان، دکی، لورالائی، ہرنائی، اور مچھ سمیت دیگر علاقوں میں انٹرنیٹ سروس مکمل طور پر بند کردی گئی ہے۔

حکام کے مطابق انٹرنیٹ بندش سیکورٹی خدشات کی بنا پر کی گئی ہے، تاہم اس کے حوالے سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔

ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کی زیر قیادت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں بلوچستان میں جاری شورش کے پیش نظر بڑے پیمانے پر سیکورٹی آپریشن کا فیصلہ کیا گیا، انٹرنیٹ اور مواصلاتی نظام کی معطلی کو اس آپریشن کا حصہ سمجھا جا رہا ہے۔

دوسری جانب انٹرنیٹ کی بندش سے مقامی افراد شدید متاثر ہیں۔ خضدار اور پنجگور کے طلباء کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ نہ ہونے سے ان کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں، خاص طور پر آن لائن کلاسز اور تحقیقی کام رک گئے ہیں۔

عوامی ردعمل

مقامی آبادی نے انٹرنیٹ بندش کو ایک ظالمانہ اقدام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ان کے روزمرہ کے معمولات کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ علاقے میں کاروباری سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں، جبکہ طلباء اور دیگر افراد کے لیے یہ پابندی شدید مشکلات کا باعث بن رہی ہے۔

مذکورہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلباء نے شکایت کی ہے کہ انٹرنیٹ کی بندش انکے تعلیم سرگرمی پر اثرات مرکب کریگی جہاں انھیں آنلائن کلاسز لینے ہوتے ہیں انٹرنیٹ بندش سے انکے کلاسز و دیگر تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

واضح رہے کہ انٹرنیٹ بندش ایک ایسا اقدام ہے جو حکومتی پالیسیوں پر سوال اٹھاتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں پہلے ہی عالمی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔

بلوچستان کے سیاسی و انسانی حقوق کے تنظیموں نے خدشات ظاہر کئے ہیں کہ حکومت ایسے اقدامات سے بلوچستان میں جاری ریاست مظالم اور انسانی حقوق کے پامالیوں کو چھپانے کی کوشش کریگی جس کی تیاری بڑے زور سے جاری ہے جبکہ مقامی آوازوں کو دبانے کی کوشش بھی کی جاسکتی ہے جو انٹرنیٹ کے زریعے اپنی آواز عالمی اقوام تک پہنچاتے ہیں۔

ان تنظیموں نے انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ حکومت کے ان غیر انسانی اور شہری حقوق کے خلاف ورزیوں پر انسے سوال کریں اور ان اقدامات کی مخالفت کریں۔