مشرق وسطیٰ پر جنگ کے بادل
ٹی بی پی اداریہ
دو اکتوبر کی رات ایران نے بڑے پیمانے پر بیلیسٹک میزائلوں سے اسرائیل پر حملہ کردیا۔ ایران کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے اور یہ حملہ حماس کے سربراہ اسماعیل حنیہ، حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل حسن نصراللہ اور بریگیڈیر نیلفروشان کے قتل کے جواب میں کئے گئے ہیں اور پاسداران انقلاب نے دھمکی دی ہے کہ اگر اسرائیل نے ایرانی مفادات پر جوابی حملہ کیا، تو اگلا حملہ اس سے بھی شدید ہوگا۔ اسرائیل نے ایرانی میزائل حملوں پر جوابی حملے کا اعلان کیا ہے۔
ساتھ اکتوبر دو ہزار تئیس کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے ہی مشرق وسطیٰ پر جنگ کے بادل چھائے ہوئے تھے لیکن یکم اپریل دو ہزار چوبیس کو اسرائیل نے شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانہ پر حملہ کردیا، جس میں بریگیڈیر محمد رضا زاہدی اور دوسرے آفیسرز مارے گئے، جِس کے جواب میں چودہ اپریل کو ایران نے پہلی بار براہ راست اسرائیل پر میزائل ؤ ڈرون حملے کئے اور دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر کھڑے ہوگئے لیکن عالمی طاقتوں کی کوششوں سے جنگ کو روکا گیا۔
ایران کے مرکزی شہر تہران میں فلسطینی رہنما کے ہلاکت نے جنگ کی شدت کو مزید بڑھادیا اور اسرائیل کی لبنان پر وسیع پیمانے پر فضائی حملوں میں حزب اللہ قیادت اور ان کے جنرل سیکریٹری حسن نصراللہ کی ہلاکت ایران کا دوبارہ اسرائیل پر بڑے حملے کا سبب بنا، جس کے بعد مشرق وسطیٰ پھر جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے اور اسرائیل کا ایران پر جوابی حملہ باقاعدہ جنگ کا سبب بن سکتا ہے۔ جس میں امریکہ بھی شریک ہوگا اور شام، عراق, یمن اور اردن سمیت کئی ممالک جنگ کی لپیٹ میں آئیں گے۔
ایران بلوچوں کا ہمسایہ ملک ہے اور اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ جنگ کی صورت میں جنگ کی تپش بلوچستان تک پہنچے گی اور گولڈ سمڈ لائن کے دونوں اطراف کے بلوچ معاشی و سیاسی طور پر متاثر ہونگے۔ تاہم بلوچ قوم پرست تجزیہ نگار اس حوالے متضاد رائے رکھتے ہیں کہ آیا کوئی ممکنہ ایران-اسرائیل جنگ، بلوچ تحریک آزادی کیلئے ایک موقع ثابت ہوگا یا تباہی۔