بلوچ ریپبلکن اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے ایک جاری بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصوں سے بلوچ طلبا کی گمشدگیوں میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے۔
پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکار زیرِ تعلیم بلوچ طلبا کو دن دھاڑے لوگوں کے سامنے غیر قانونی طورپر حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کر دیتے ہیں جبکہ قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے بلوچوں کی جبری گمشدگیوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ بولان میڈیکل کالج میں زیرِتعلیم فائنل ایئر کے طالب علم سعید بلوچ کو پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے گزشتہ دن کالج کے مین ہاسٹل سے غیر قانونی طورپر حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا ہے۔ سعید بلوچ ایک قابل اور ہونہار طالب علم ہے جس کا کسی بھی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں لیکن اس کے باوجود بھی اسے لاپتہ کرنا اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ریاستی اداروں کو تعلیمی اداروں میں بلوچوں کی موجودگی قابلِ قبول نہیں ہے۔
جبکہ گزشتہ دنوں پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے مقامی ڈٰتھ اسکواڈ کے کارندوں کے ساتھ مل کر پنجگور کے علاقے تسپ میں ہائی اسکول پر چھاپہ مارتے ہوئے دورانِ میٹرک امتحانات انیس ولد عبدالخالق نامی نوجوان کو اغوا کرلیا تھا۔
بی آر ایس او کے مرکزی ترجمان نے مزید کہا کہ سعید بلوچ وہ واحد طالب علم نہیں ہے جسے غیر قانونی طورپر حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کیا گیا ہو۔ بلکہ اس سے پہلے بھی متعدد بلوچ طلبا کو پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے مختلف شہروں اور تعلیمی اداروں سے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ اس سے پہلے بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹری عطا نواز بلوچ کو دیگر آٹھ افراد کے ساتھ حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کیا گیا جن میں ایک کمسن بچہ بھی شامل ہے۔ اور کراچی سے ہی بی ایس او آزاد کے مرکزی سیکرٹری جنرل ثنا اللہ بلوچ کو سینٹرل کمینی کے دو ممبران حصام بلوچ اور نصیر بلوچ جبکہ بلوچ نیشنل موومنٹ کے کارکن رفیق بلوچ کے ہمراہ خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا تھا جو تاحال ریاستی اداروں کے غیر قانونی قید میں ہیں ۔ترجمان نے مزید کہا ہے کہ بلوچ لاپتہ افراد کی فہرست بہت طویل ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس فہرست میں بی آر ایس او کے سابقہ چیئرمین، جونیئر وائس چیئرمین، سینٹرل کمیٹی کے ممبران اور کارکنان بھی شامل ہیں۔ کیونکہ انسانی حقوق کے اداروں کی مجرمانہ خاموشی ریاست اداروں کو بلوچوں کو اغوا کرنے کا حوصلہ اور جواز فرائم کر رہی ہے۔