بلوچ اور پاکستان کا رشتہ؟ – ٹی بی پی اداریہ

338

بلوچ اور پاکستان کا رشتہ؟

ٹی بی پی اداریہ

بلوچستان میں دو مکاتبِ فکر کی جماعتیں قوم پرستانہ سیاست سے منسلک ہیں۔ غوث بخش بزنجو کے فکر سے وابستہ جماعتیں پاکستان کے وفاق کا حصہ بن کر بلوچ مسائل کا حل تلاش کرنے کے داعی ہیں۔ خیربخش مری کے فکر سے وابستہ ادارے پاکستان سے آزادی کو بلوچ قوم کی نجات و قومی وجود کو برقرار رکھنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور دو دہائی سے بلوچستان کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

بلوچ قوم کے دونوں مکاتبِ فکر کے اکابرین نے مختلف ادوار میں قومی حقوق کے حصول ؤ آزادی کی جدوجہد جاری رکھی لیکن انیس سو ستر کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی کے حکومت کی برطرفی اور بلوچ قائدین کو پابند سلاسل کرنے کے بعد جیل میں ہی اپنی راہیں جدا کرلیں۔ غوث بخش بزنجو نے پاکستان کے فیڈریشن میں رہتے ہوئے بلوچ حقوق کے حصول کا سیاست جاری رکھنے کا فیصلے کیا اور خیربخش مری نے پاکستان کی پارلیمانی سیاست کو بے سود قرار دیتے ہوئے بلوچ قومی آزادی کو مسائل کا حل قرار دیا اور اپنی زندگی بلوچ انسرجنسی کو منظم کرنے میں وقف کردی۔

بلوچستان کی جبری الحاق سے ہی بلوچ اور پاکستان کا رشتہ جبر و استبداد کے بنیاد پر قائم ہے۔ حقوق ؤ آزادی کی تحریکوں کو سات دہائیوں سے طاقت کے زور پر دبانے کی کوششیں جاری ہیں جس سے بلوچستان میں یہ خیال راسخ ہوچکا ہے کہ بلوچستان اور پاکستان کا رشتہ فیڈریشن سے زیادہ ایک کالونی کا ہے جس کو برقرار رکھنے کے لئے مسلسل جبر ؤ تشدد کا سہارہ لیا جارہا ہے ۔

اکیسویں صدی میں بلوچ اور پاکستان کے تضادات تیز ہوئے اور تحریک آزادی کو بلوچ عوام میں پزیرائی حاصل ہوئی، جسے ختم کرنے کے لئے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ہم انہیں ( بلوچوں ) وہاں سے ہٹ کریں گے کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا، جس کے جواب میں خیر بخش مری نے کہا کہ ہم بھی ستر کے بلوچ نہیں ہیں، ہم پاکستان کو اُسی کے زبان میں جواب دیں گے۔

جنرل مشرف کے دور سے انسداد انسرجنسی پالیسیوں کا نفاذ شروع ہوا جس سے بلوچستان میں ناختم ہونے والے جبر و استبداد کا آغاز ہوا جو دو دہائیوں سے جاری ہے اور بلوچستان میں ایسے گھر بہت کم ہونگے جو ریاستی جبر سے متاثر نہ ہوں۔ ریاستی جبر نے عوامی مزاحمت کو جنم دیا جو مختلف شکلوں میں جاری ہے اور بلوچستان کے باسی اس خیال کا اظہار کررہے ہیں کہ پاکستان اور بلوچ کا رشتہ حاکم ؤ محکوم کا ہے۔ حالیہ سیاسی ابھار نے اس خیال کو محکم کیا ہے کہ پاکستان کے پارلیمانی نظام میں بلوچ مسائل کا حل ممکن نہیں ہے اور صرف مزاحمت سے ہی بلوچ قوم اپنے حقوق حاصل کرسکتے ہیں۔