بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے جاری کردہ اپنے بیان میں کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگی کے واقعات نے ایک خطرناک شکل اختیار کی ہے اور بلوچستان بھر میں آئے روز طلباء سمیت دیگر مکتبہ فکر کے لوگوں کی جبری گمشدگیوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جو بہت ہی تشویشناک ہے۔ جبری گمشدگی ایک سنگین مسئلہ ہے جسے کوئی بھی ادارہ روکنے میں ناکام دیکھائی دے رہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں جبری گمشدگی کی وجہ سے طلباء ذہنی ہراسمنٹ کا شکار ہیں۔ طلباء کو مختلف طریقوں سے ہراس کیا جا رہا ہے جس میں جبری گمشدگی کے واقعات سب سے خطرناک ترین عمل ہے جسے فوری طور پر بند ہونا چاہیے۔ طلباء کی گمشدگیوں کی وجہ سے طالب علموں کا تعلیمی عمل متاثر ہو رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ آئے دن کی گمشدگیوں کے واقعات کی وجہ سے بلوچستان میں نوجوان اپنی جبری گمشدگی کے دن کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ بلوچ طلباء کے لئے ایسے حالات پیدا کیے گئے ہیں کہ طالب علم اپنی تعلیمی اداروں میں بھی خود کو غیر محفوظ محسوس کررہے ہیں۔ مختلف واقعات کو جواز بنا کر غیر قانونی چھاپوں نے جہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو جنم دیا ہے تو دوسری جانب خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرکے نوجوانوں کو ذہنی کوفت میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ آج بلوچ سماج کی ساخت ایسے انسانی بحرانوں کی وجہ سے ٹوٹ کر بکھر گیا ہے۔ کسی کو جبراً گمشدہ کرنا کسی بھی ملکی قوانین کے خلاف ہے، مگر لگتا ہے کہ بلوچستان میں لاقانونیت کا رواج ہے کہ بنا کسی قانونی طریقہ کار کے طلباء کو مسلسل اٹھایا جا رہا ہے۔
بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ جبری گمشدگی ایک سنگین جرم ہے اور اجتمائی سزا کے مترادف ہے جس کو ہمیں اجتمائی جدوجہد سے روکنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے قوم اور قوم کے نوجوانوں سے درخواست کرتے ہیں کہ اس سنگین انسانی المیہ کے خلاف آواز اٹھائیں جبکہ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں طلباء کی جبری گمشدگیوں کے واقعات کو فوری طور پر بند کیا جائے۔