‎نگوگی وا تیانگو زندہ ہے – نادیہ بلوچ

101

‎نگوگی وا تیانگو زندہ ہے

تحریر: نادیہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‎ہر معاشرے میں تعلیم
‎یافتہ اور شعوریافتہ لوگ تو بہت ہوتے ہیں مگر علم پہ عمل کرنے والے اور شعور کو پھیلانے والے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں تعلیم یافتہ لوگوں کی کمی نہیں اور نا ہی ان کی تعلیم پہ خرچ کرنے والے لوگوں کی کمی ہے اگر کمی ہے تو تعلیم کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے والے اور اسے پھیلانے والوں کی ہے۔ دنیا میں بہت سے لوگوں نے اپنی عمر تعلیم حاصل کرنے میں وقف کر دی لیکن ان میں محض کچھ ہی لوگ تاریخ میں نمودار ہوئے اور وہ لوگ دوسروں کے لیے کسی روشن چراغ سے کم نہیں تھے۔

‎ان میں ایک دانشور اور حُب الوطن شخص جو اکیسویں صدی کی سب سے نڈر اور باضمیر افریقی قلمکار، نگوگی وا تیانگو، 28 مئی 2025 کو انتقال کر گئے اور اپنے پیچھے ایک تاریخ رقم کر کے چل دیئے۔ نگوگی ایک ایسا شخص تھا جس نے نہ صرف افریقہ کے لوگوں کی دُکھ بھری داستانیں بیان کی بلکہ دنیا میں بسنے والے نوآبادیاتی نظام کے شکار تمام مظلوموں کے درد کو اپنا درد سمجھ کر اپنے قلم کے ذریعے دنیا میں نوآبادیاتی سیاہ نظام کو اجاگر کیا اور لوگوں کے دل و دماغ میں ظالم ریاستوں کی تاریک چالوں کو بے نقاب کیا۔

‎نگوگی کا انتقال صرف افریقی لوگوں کے لیے باعث تکلیف اور رنج کا عالم نہیں پھیلاتا بلکہ مظلوم بلوچوں کے لیے وه ایک آئینے سے کم‌ نہیں تھا اس کا اچانک دنیا سے رخصت ہونا میرے لیے میری ایک عزیز استاد کے چل دینے کے برابر ہے۔

‎جس طرح اس ایک شخص نے مظلوم سیاہ فام لوگوں کے درد کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا‌ میرے خیال‌ میں کسی بھی مصنف نے کم‌ ہی کیا ہوگا۔

‎اپنی کتاب (Homecoming )میں نوآبادیاتی تعلیم کو پاش کر کے نگوگی کچھ اس طرح کا سوال اٹھاتا ہے کہ “جس سرزمیں کے نوے فیصد لوگوں کی آبادی افریقی ہیں تو اس سرزمین کے لوگوں کو اسکولوں میں انکے اپنی زبان کے بجائے نوآبادکار کی زبان کیوں پڑھایا جاتا ہے؟”

‎یه سوال محض اس نے اپنے لوگوں کو جگانے کے لیے اجاگر نہیں کیا تھا بلکہ یہ سوال ہر اُس شخص کو اٹھانا چاہیے جس کی شناخت یعنی زبان نوآبادیاتی نظام کے زد میں آ گئی ہے۔

‎کسی غلام اور محکوم طالبعلم کے لیے اس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے کہ اسے کسی ایسے مصنف کی کتابیں پڑھنے کا موقع ملے جو غلامی کی جڑ سے واقف ہو ،جو نوآبادیاتی نظام کو فرضی قصوں کے ذریعے حقیقت کو عیاں کرنے کا ذریعہ بنائے اور دنیا کے سامنے پیش کرے ، غلامی کی زد میں تو بہت سے مظلوم لوگ جکڑے جاتے ہیں لیکن غلامی کی جڑ کو سمجھنے والے اور اس کی تلخ سچائیوں کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے والے محض چند لوگ ہی ہوتے ہیں ۔

‎نگوگی نے اپنے کتابوں کے زریعے دنیا کے ہر کونے میں ہونے والے مظالم کو بہترین انداز میں پیش کیا اسکی ساری زندگی ادب کے ذریعے مظلوم لوگوں پہ صرف ہوتی گئی۔ سب سے بہترین اسکی ایک عمل جو اسکی نفرت کو نوآبادکار کے لیے ظاہر کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے نوآبادکار کے دیے ہوئے نام (James Ngugi)کو مسترد کر دیا اور یہ ظاہر کیا نوآبادکار مجھے ایک قلمی نام دے کر مجھے خریدنا چاہتا ہے لیکن میں ریاست کی دی ہوئی نام کو مسترد کرتا ہوں اور مجھے اپنا قومی نام عزیز ہے۔ اسی کی ان ہی اعمال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس نے علم کو محض کتابوں کے زریعے لوگوں تک نہیں پہنچایا بلکہ اعمال سے اپنے اندر کی نفرت کو فاشسٹ کو دکھایا۔ نگوگی شاید ہی آج ہم میں نہیں رہے لیکن تاریخ کے صفحات اسے ہمیشہ ایک ایرو کی طرح یاد رکھیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔