کوئٹہ جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ جاری

12

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی قیادت میں بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری طویل بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 5826 دن مکمل ہو گئے، پنجگور سے سیاسی و سماجی کارکن داد جان بلوچ، عظیم بلوچ اور متعدد خواتین نے کیمپ آ کر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہارِ یکجہتی کیا۔

کیمپ میں آئے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچستان میں پرامن تحریک اپنے عروج پر ہے اب تک 80 ہزار سے زائد بلوچ جبری طور پر لاپتہ کیے جا چکے ہیں جبکہ 25 ہزار سے زائد بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں ہمیں اس طویل پرامن جدوجہد کے دوران ملی ہیں۔

انہوں نے کہا ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہماری غلامی کے دن کم ہوتے جا رہے ہیں شعور کی یہ لہر بلوچستان کے پہاڑوں، میدانوں، شہروں، گلیوں اور کوچوں سے نکل کر اب عالمی ایوانوں تک پہنچ چکی ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا ایک طرف پاکستانی حکمرانوں پر یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو چکی ہے کہ وہ اب مزید بلوچ قوم کو دباکر محکوم نہیں رکھ سکتے اس لیے وہ اپنی پوری توانائی پرامن جدوجہد کو ختم کرنے میں صرف کررہے ہیں۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا چاہے دشمن ہم سب کو قتل کر دے، قید کرے، ہمارے گھر بار جلا دے یا بمباری کرے، ہماری ماؤں، بہنوں اور بچوں کو شہید کر دے ہم اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہیں مگر ہرگز پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ قوم کی پرامن جدوجہد کے تسلسل میں شہادت اور پاکستانی خفیہ اداروں کی جانب سے نوجوانوں کا جبری اغوا ایک عام بات بن چکی ہے لیکن ہماری پرامن جدوجہد کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہو چکی ہے یہ سب کچھ بلوچ قوم کی اپنی جدوجہد، علمی صلاحیت، قربانیوں اور شہداء و جبری لاپتہ افراد کی مزاحمت کی بدولت ممکن ہوا ہے۔

دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ آج بھی کئی لوگ خوف اور ڈر کے باعث گھروں سے باہر نکلنے کی ہمت نہیں کرتے۔

آخر میں ماما قدیر بلوچ نے کہا اگر ہم بلوچستان کے مختلف علاقوں اور بستیوں کا جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ غلام قوم کی سب سے بڑی علامت خوف اب بھی موجود ہے ایسے وقت میں جب پاکستان جیسا جابر ریاست بلوچ قوم پر مسلط ہے ہر بلوچ خاتون کو بی بی بانڑی کی طرح اپنا قومی فریضہ ادا کرنا چاہیے۔