قابض فوج پر حملے اور زیرِ حراست دو آلہ کاروں کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں – بی ایل اے

54

بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو جاری ایک بیان میں کہا کہ ہمارے سرمچاروں نے گوادر کے علاقے جیونی میں قابض پاکستانی فوج کو ایک ریموٹ کنٹرول آئی ای ڈی حملے میں نشانہ بنایا، جبکہ نوشکی اور قلات میں قابض فوج کے دو زیرِ حراست آلہ کاروں ،سمیع سرپرہ اور نظام کرد کو اعترافِ جرم کے بعد سزائے موت دے دی گئی۔

ترجمان نے کہاکہ آج گوادر کے جیونی علاقے میں بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کے ذریعے ان اہلکاروں کو نشانہ بنایا جو سڑک پر ناکہ لگا کر گاڑیوں سے بھتہ وصول کر رہے تھے۔ حملے کے نتیجے میں قابض فوج کا ایک اہلکار، اللّٰہ داد، موقع پر ہلاک جبکہ دوسرا شدید زخمی ہوا۔

دھماکے کے بعد حواس باختہ قابض فوج نے اندھا دھند فائرنگ کی، جس سے متعدد عام شہری زخمی ہوئے، اور اپنی جارحیت جاری رکھتے ہوئے کئی افراد کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا۔

انہوں نے کہاکہ بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے 13 جون کو گرگینہ کے علاقے سے سمیع سرپرہ ولد فتح محمد سرپرہ سکنہ نوشکی کو شناخت کے بعد حراست میں لیا گیا۔ تفتیش کے دوران اس نے اعتراف کیا کہ وہ اختر بادینی کے ذریعے آئی ایس آئی سے منسلک ہوا اور 2014 سے قابض پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے لیے بطور آلہ کار کام کر رہا تھا۔

ترجمان نے کہاکہ سمیع سرپرہ نے بتایا کہ وہ 2014 میں عامر جمالدینی کو جبری طور پر لاپتہ کرنے میں ملوث تھا، جس کے بعد اس کی مسخ شدہ لاش پھینک دی گئی۔ اس نے نوشکی اور گردونواح میں گھروں پر چھاپوں، خواتین و بزرگوں کی تذلیل، اور نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں میں فوج کی براہِ راست سہولت کاری کی۔ یاسر جمالدینی کو سرینڈر کروانے اور بعد ازاں انٹیلیجنس اداروں کے لیے کام پر آمادہ کرنے میں بھی وہ ملوث رہا۔

انہوں نے کہاکہ مزید برآں، سمیع سرپرہ نے کئی افراد کو فوج کے لیے بطور مخبر اور ڈیتھ اسکواڈ کے رکن بھرتی کروایا، اور اپنے ساتھیوں سمیت دیگر افراد کے نام بھی افشا کیے جو قابض فوج کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔

مزید کہاکہ بلوچ قومی عدالت نے قومی غداری اور ان جرائم کی پاداش میں سمیع سرپرہ کو سزائے موت سنائی، جس پر 23 جون کو لجے کے مقام پر عمل درآمد کیا گیا۔

اسی طرح، مستونگ کے علاقے اسپلنجی مَرو سے نظام کرد ولد ٹکری نورالدین سکنہ خلی کو حراست میں لیا گیا، جس نے دورانِ تفتیش اعتراف کیا کہ وہ گزشتہ پانچ سال سے قابض فوج کا آلہ کار تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ اسپلنجی، کولپور اور کوئٹہ کے فوجی کیمپوں میں فوج کے کہنے پر جسم فروش خواتین لے جایا کرتا تھا۔ اس دوران وہ خود بھی جنسی استحصال کا شکار ہوتا رہا، جس کے بدلے اسے پیسے دیے جاتے تھے۔

انہوں نے کہاکہ نظام کرد نے مزید اعتراف کیا کہ وہ گوکرت، مچھ، اور مستونگ میں قابض فوج کی جارحانہ کارروائیوں میں شریک رہا، اور متعدد مرتبہ فوج کے ساتھ گوادر تک بھی گیا۔

انہوں نے کہاکہ بلوچ قومی عدالت نے اعترافِ جرم کے بعد نظام کرد کو بھی سزائے موت سنائی، جس پر گذشتہ روز سرمچاروں نے عمل درآمد کیا۔

آخر میں کہاکہ بلوچ لبریشن آرمی ان دونوں آلہ کاروں کی ہلاکت اور قابض فوج پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔