داعش کی بلوچوں پر حملوں کی دھمکیاں: پاکستان داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر وضاحت دے- افراسیاب خٹک

358

عالمی دہشت گرد تنظیم داعش خراسان کی جانب سے بلوچوں پر حملوں کے اعلان پر سابق سینیٹر اور پشتون قوم پرست رہنما افراسیاب خٹک نے ریاست سے وضاحت طلب کی ہے۔

افراسیاب خٹک نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” سابق ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ پاکستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر متعلقہ اداروں کو وضاحت دینی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں غیر ملکی دہشت گرد دیگر ممالک کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کی مدد سے گرفتار کیے جاتے ہیں اور اب داعش نے بلوچ لبریشن آرمی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔

افراسیاب خٹک نے مزید کہا کہ داعش کی موجودگی ہمیں دو دہائیاں قبل القاعدہ کی موجودگی کی یاد دلاتی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 25 مئی کو عالمی شدت پسند تنظیم داعش خراسان گروپ نے اپنے ایک بیان میں بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں پر بلوچستان کے ضلع مستونگ میں اپنے ٹھکانوں پر حملوں کا الزام عائد کیا تھا۔

اس گروہ نے اپنے ایک طویل پروپیگنڈہ ویڈیو میں نہ صرف بلوچ آزادی پسندوں بلکہ لاپتہ افراد کے لواحقین اور انسانی حقوق کے تنظیموں کی ریلیوں پر بھی حملوں کی دھمکیاں دی تھی۔

تاحال بلوچ آزادی پسند مسلح گروہوں کی جانب سے اس حوالے سے کوئی باضابطہ مؤقف سامنے نہیں آیا اور نہ ہی انہوں نے ان حملوں کی تصدیق یا تردید کی ہے۔

داعش خراسان کی اس پیش رفت پر سابق امریکی سفیر برائے افغانستان و خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ داعش خراسان اور پاکستانی سیکیورٹی فورسز اب بلوچ قوم پرستوں کے خلاف ایک ہی صف میں کھڑے نظر آ رہے ہیں جو خطے میں طاقت کے توازن کے لیے ایک نیا اور خطرناک موڑ ہے۔

زلمے خلیل زاد نے عالمی برادری کو خبردار کیا کہ بلوچستان میں جاری کشیدگی اب بین الاقوامی شدت پسند تنظیموں اور ریاستی اداروں کی ملی بھگت کی شکل اختیار کررہی ہے جو خطے کے امن کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

داعش خراسان کی جانب سے بلوچ آزادی پسند گروہوں کو حملوں کی دھمکی کے بعد تنظیم نے اپنے بیانات پشتو اور فارسی زبانوں میں جاری کیے ہیں اور بلوچستان میں اپنے حامیوں سے بلوچ سیاسی و آزادی پسند تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

بالخصوص لاپتہ افراد کے لواحقین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جلسوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی پر بلوچ سیاسی تنظیموں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور اسے ریاست پاکستان اور اس کی سیکیورٹی فورسز کی سازش قرار دیا ہے۔

ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ ریاست بلوچ یکجہتی کمیٹی کو اپنے مظالم کے خلاف مزاحمت سے روکنے کے لیے شدت پسند گروہوں کو بطور پراکسی استعمال کر رہی ہے۔

انہوں نے عالمی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان سے اس حوالے سے جواب طلب کریں۔