بلوچ عوام پر ریاست کی قہر برپا کردینے والی جبر و استبداد جاری، طلبہ کو جبری گمشدگیوں و قتل عام کا نشانہ بنایا جارہا ہے – بی ایس او

29

پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ غلام علی بلوچ اور اورنگزیب بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف بی ایس او کے قائدین نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آج کے اس پریس کانفرنس کے توسط سے گوش گزار کرانا چاہتے ہیکہ 22 جون بروز اتوار کو جناح ٹاؤن کوئٹہ سے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن مستونگ زون کے جنرل سیکریٹری غلام علی بلوچ کو سیکورٹی فورسز و خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے دن دھاڑے ماورائی آئین گرفتار کرکے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔ جبکہ پچھلے مہینے مستونگ زون کے ساتھی اورنگزیب بلوچ کو انکی رہائش گاہ مستونگ سے ریاستی خفیہ اداروں نے ماوراء قانون جبری طور پر لاپتہ کرکے نا معلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے جن کے متعلق ہمیں تاحال کوئی اطلاع نہیں کہ وہ کہاں اور کس حالت میں ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور بلوچ عوام پر ریاست نے قہر برپا کردینے والی جبر و استبداد کا آغاز کیا ہے۔ جس کے نتیجہ میں سینکڑوں کی تعداد میں بلوچ طلباء کو جبری گمشدگیوں اور ماورا آئین قتل عام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جبکہ سیاسی کارکنان کو سخت ترین بندشوں اور پابندیوں کا شکار بنا کر مفلوج کرنے کے عزائم پر عمل پیرا ہے۔ اسی تسلسل میں بلوچ یکجھتی کمیٹی کے کارکنوں و دیگر مزاحمتی سیاسی کارکنان کو قید و بند کی صعوبتوں میں رکھا گیا ہے ۔ جس کا واضح مقصد بزور جبر و خوف کے بلوچ عوام کی قومی طاقت کا گلہ گھونٹنا ہے۔ ہم بحیثیت تنظیم مقتدر قوتوں کو واضح کرانا چاہتے ہیکہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی دہائیوں پر محیط تاریخ ریاستی طاقت و وحشت کے برخلاف ناقابل مصالحت جدوجہد و قربانیوں سے بھر پور ہیں ۔ بزور۔ شمشیر بلوچ نوجوانوں کی سیاسی شعوری درسگاہ کو نیست و نابود کرنے والے عزائم کو ماضی میں بھی بلوچ نوجوانوں کی جدوجہد کے سامنے بلآخر سرنگوں ہونا پڑھا اور آج بھی ان شعور دشمن عناصر کو منہ کی کھانی پڑھے گی۔

رہنماؤں نے کہا کہ بلوچ سماج میں بی ایس او بلوچ طلبہ و نوجوانوں کیلئے سیاسی و سماجی علوم کے درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہے جو تاریخی طور پر طلبہ و عوام کے مجموعی مسائل و محکومیت کے خلاف جمہوری و ترقی پسندانہ اصولوں پر قائم نمائندہ تنظیم رہی ہے۔ مگر بد قسمتی سے پچھلے کئی دہائیوں سے بلوچ سماج پر مسلط جبر و استحصال پر قائم پالیسیوں کے زریعے ہر طرح کے سیاسی و جمہوری طرز جہدوجہد پر قدغن لگائی گئی ہے۔ حق کی بات کرنے یا احتجاج پر عوام پر گولیاں برسائی جاتی ہیں اور نوجوانوں کو جبری گمشدگی اور جھوٹے مقدمات کا نشانہ بنا کر ظلم کے خلاف ہر آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں غلام علی بلوچ اور اورنگزیب سمیت ہزاروں لاپتہ نوجوان ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کے پاداش میں جبری گمشدگی کا شکار ہیں جو کہ شہری کی بنیادی حقوق و آئین کی بدترین پامالی ہے

انہوں نے کہا کہ ہم اس پریس کانفرنس کے توسط سے ریاستی اداروں کو بھی یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ غلام علی بلوچ اور اورنگزیب بلوچ زمہ دار اور پرامن و جمہوری سیاسی کارکن ہیں۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اپنے کارکنان کی جبری گمشدگی کو اپنی جمہوری و آئینی جدوجہد پر حملہ تصور کرتی ہے۔ ہم مقتدر قوتوں کو یہ باور کرانا چاہتے ہیکہ کسی بھی قسم کے طاقت کے استعمال کے سامنے بی ایس او اپنی پرامن آئینی و جمہوری جدوجہد سے قطعاً دستبردار نہیں ہوگی بلکہ بی ایس او کے عظیم انقلابی آدرشوں پر قائم و دائم رہتے ہوئے بہرصورت دیدہ دلیری سے اپنا دفاع کریگی۔ غلام علی بلوچ اور اورنگزیب بلوچ اگر کسی بھی قسم کے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں انہیں باعزت طریقے سے بازیاب کر کے ریاستی عدلیہ میں پیش کیا جائے۔ بصورت دیگر ہمارے تنظیم کے بے گناہ نوجوانوں کو ماورائے عدالت عقوبت خانوں میں قید رکھنا ہمیں کسی صورت قبول نہیں۔ اگر غلام علی بلوچ اور اورنگزیب بلوچ کی بحفاظت بازیابی کو یقینی نہیں بنایا گیا تو تنظیم سیاسی و قانونی چارہ جوئی کا جمہوری حق محفوظ رکھتی ہے اور تنظیمی ساتھیوں کی بازیابی کے لیے بلوچستان اور ملک گیر سطح پر سیاسی تحریک چلائے گی۔ اس بابت ہم تمام باشعور عوام، سیاسی کارکنان، وکلاء برادری، سیاسی جماعتوں، ساتھی طلبہ تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھیوں کی با حفاظت بازیابی یقینی بنانے میں ہمارا ساتھ دیں۔