بلوچستان کی شاہرائیں، یہ ہی سے اٹھنے والے بلوچ قوم کی مزاحمت – سلطانہ بلوچ

48

بلوچستان کی شاہرائیں، یہ ہی سے اٹھنے والے بلوچ قوم کی مزاحمت

تحریر: سلطانہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان دنیا کے نقشے میں ایک تاریخی سرزمین رہی ہے۔ یہ وہ سرزمین رہی ہے جس میں بسنے والا قوم ہر دور میں اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف بغاوت کرتے آرہے ہیں۔

جب ہم بلوچستان کی زمین سے گزرنے والوں خوبصورت شاہراہوں کی بات کرتے ہیں تو یہ وہ شاہراہیں جو آج پورے بلوچ قوم کا درد ،اذیت اور آنسوئوں کو اپنے اندر جذب کرکے رکھے ہوئے ہیںجو تمام بلوچ قوم کے درد،دکھ اور بلوچ قوم کے اوپر ہونے ظلم کو اپنے کناروں سے سمیٹ کے چلتے ہوئے جب یہ تمام سڑکیں ایک جگہ ملتے ہیں تو پورا بلوچ قوم اسی چوک پہ یکجا ہو کر اس ظالم قابض کے ظلم اور تشدد کے خلاف مزاحمت کی راہ کو اپنا لیتی ہے۔

ماما قدیر بلوچ کی کیمپ منان چوک کے قریب ایک شاہراہ کے کنارے کو ماما نے اپنا خوبصورت سا مسکن بنایا ہوا ہے جو ایک تاریخ رقم کر چکی ہے۔ بلوچ قوم میں ضیف العمر ہو یا نوجوان یا شیرزال انھوں نے ہرا دوار میں اپنی قومی بقا،قومی شناخت کے لیے مزاحمت اور جدوجہد کا راستہ اپنایا ہے۔

ریڈ زون شال ،بلوچستان یونیورسٹی ،کسٹم ، مستونگ میں نواب ہوٹل ، میجر چوک ،قلات میں مین بازار منگچر سے قلات کے مین چوک ،سوراب کا مین روڈ سے آگے خضدار ، کیچ کا شہید فدا چوک جو بلوچستان کے تاریخ میں ایک خوبصورت اور مزاحمت کی ایک پوری داستان لکھ چکی ہیں۔

قوم اس چوک کو شہید فدا بلوچ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ پورے بلوچستان میں بہت سی ایسے شاہراہیں ہیں جوبلوچ قوم کو آج بھی یکجا کر رہی ہیں۔ گوادر وہ سرزمین رہی ہے جو آج بھی ان شاہراہوں پہ اپنے دکھوں کی داستانوں کو مزاحمت کا رنگ دے کے اپنے گیتوں کو گاتی ہے۔

بلوچستان کی شاہراہیں محض بلوچ قوم کے لئے شاہراہیں نہیں بلکہ بلوچ قوم کی جدوجہد ، مزاحمت ، آنسو،دردوغم ، سسکیوں کی داستانیں ہیں کیونکہ سڑکیں جب ایک ساتھ ملتے ہیں تو ایک چوک قائم ہوتا ہے وہاں اور بلوچ اسی چوک پہ ایک ساتھ ہوتا ہے وہی پہ پورا قوم ایک صف میں کھڑا ہو کر اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو بیان کرتا ہے۔

یہ سڑکیں جنہیں چوک یکجا کرتی ہیں وہی پہ بلوچ قوم ایک ساتھ ہوتا ہے جہاں سے بلوچ قوم متحد ہو کر اپنے لیے ایک فکر ،ایک سوچ اور ایک فلسفہ کی بنیاد ڈالتی ہے۔ وہ فلسفہ جو ایک کاروان کو جنم دیتی ہے اور وہ کارواں کی شکل اختیار کرنے کے بعد بلوچ قوم کی مزاحمت کو تقویت بخشتی ہے اور یہ قافلے کی مزاحمت  آگے چل کر قوم کی تحریک کو مضبوط کرتی ہیں۔

سی،پیک بلوچستان کی وہ شاہراہ ہے جہاں سے بلوچستان کی بہت سے وسائل ،معدنیات ،سونا ،کوئلہ ،گیس اور ہر قیمتی معدنیات اس شاہراہ سے گزرتے ہوئے پنجاب اور کئی بیرونی ملک جاتی ہیں۔لیکن بلوچ وہ بدقسمت قوم ہے جو ان ہی شاہراہوں پر اپنے قوم کے نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشوں کو کاندھا دے کر انصاف کی بھیک مانگ کر اور سوال کرتے نظرآتے ہیں کہ ہمارے پھول سے بچوں کا گناہ کیا ہے۔؟

23 نومبر 2023 کوبالاچ مولابخش جس کو پہلے جبری لاپتہ کیاگیا اورپھر اسے عدالت میں پیش کیا گیا وہ عدالت جہاں نہ بلوچ کی سنوائی ہوتی ہے اور نہ ہی بلوچ کے لیے انصاف میسر ہے۔ جہاں کوئی آئینوجود نہیں رکھتا،اس عدالت سے نکل کر بالاچ مولابخش کی مسخ شدہ لاش اس کے خاندان کو دے جاتی ہے ۔

وہی بالاچ جس کی لاش کو شہید فداچوک پر لاکر اس کا خاندان اس ظلم کے خلاف اپنی مزاحمت کا آغاز کرتی ہے۔یہ مزاحمت صرف بالاچ کے لئے نہیں تھا یہ مزاحمت ہر اس جبری لاپتہ افراد کے لئے تھا جو اس ریاست کے ٹارچر سیلوں میں ہے ،ہر اس ظلم کے خلاف تھا جو بلوچ کئی دہائیوں سے اپنے اندر سہ رہا ہے۔

یہمزاحمت ہر اس تشدد کے خلاف تھا جو بلوچ قوم کے نوجوانوں کو جبری لاپتہ کرنے کے بعد ان کے ہاتھوں کو باندھ کر ان کو شہید کرکے پھر مقابلے کا نام دے کر خود کو بری الذمہ اقرار دیتا رہاہے ۔لیکن بلوچ قوم کا نوجوان کہاں سے لاپتہ ہوا ہے اور کس نے کیا ہے یہ کس کے آنکھوں کے سامنے ہوا ہے یہ بات یہ ظالم ریاست چھپا سکتی ہے لیکن ایک بلوچ ماں کیسے بھول سکتی ہے ۔ایک بلوچ قوم کی بہن کیسے نہیں پہچان پائیں گی اپنے بزدل دشمن کو جو رات کی تاریکی کے میں بھیس بدل کر اس کے بیٹے اور بھائی کو مارتے ،پیٹتے اور گسھیٹتے ہوئے اس کے منہ پر کالا کپڑا ڈال کے لے جاتے ہیں۔

یہ ظلم یہ تشدد بلوچ قوم پر رات کی تاریکی میں چادر و چاردیواری کے تقدس کو پامال کرکے ان ماؤں کے بیٹوں کو اور معصوم بہنوں کی بھائیوں کو لے جاتے ہیں۔پھر یہی بلوچ مائیں ،بلوچ بہنیں بلوچستان کی شاہراہوں کا رخ کرتے ہیں ۔اپنے اوپر ہونے والے ظلم و بربریت کے خلاف اپنے مزاحمت کو تیز کرتے ہیں۔

بلوچ قوم کی احتجاج ان سڑکوں پر محض ایک چیخ نہیں ،ایک پکار نہیں بلکہ ایک توانا مزاحمت ہے۔اس مزاحمت میں ایک شعور چھپا ہوا ہے اس مزاحمت میں قومی جدوجہد کا ایک خوبصورت اور انقلابی پیغام چھپا ہے ۔یہ سڑکیں ماما قدیر بلوچ کی کیمپ سے شروع ہو کر پورے بلوچستان کو مکران سے ڈی،جی خان،گوادر سے سیستان کو ایک جگہ کرتی ہیں،پورے بلوچ قوم کو متحد کرتی ہیں۔ جہاں بلوچ قوم ایک دوسرے کے اوپر ہونے والے ظلم کو سمجھنے کے ساتھ ایک دوسرے کے درد کو بانٹنے کے ساتھ وہ اپنے قومی شناخت ، اپنے قومی بقا ،قومی تحریک اور قومی جدوجہد کو ان ہی شاہراہوں سے پڑھ رہے ہوتے ہیں ۔

ان ہی شاہراہوں پر بلوچ قوم کی بیٹیوں کے سروں سے ان کے چادروں کو کھینچی جاتی ہیں۔انھیں مارتے ،گھسیٹتے ہوئے پولیس گاڑی میں ڈالا جاتا ہے ۔غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

بلوچ قوم نے اس ریاست کے ظلم و بربریت اور تشدد کو بلوچستان کے ریگستانوں ،میدانوں اور پہاڑوں کے دامن میں پایا ہے جہاں بلوچ فرزندوں کو جبری لاپتہ کرنے کے ان کی مسخ شدہ لاشوں کو پھینکا جاتا ہے ۔لیکن ان مظلوموں کی درد ،آہیں اور سسکیاں تمھیں بلوچستان کے سڑکوں پہ سنائی دیں گے ۔

بلوچ نے کبھی اس ظلم اور تشدد کے سامنے اپنا سر نہیں جکھایا۔یہ شاہراہیں گواہ رہیں گی کہ بلوچ قوم سراپا مزاحمت ہے ۔بلوچستان کا ہر شاہراہ بلوچ پر ہونے والی ظلم  کے خلاف مزاحمت کو بیان کرتی ہیں۔شہید بانک کریمہ بلوچ سے لیکر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ،سمی دین بلوچ ،سائرہ بلوچ ، صبیحہ بلوچ اور گل زادی بلوچ ان سب جہد کاروں کی پرورش ان سڑکوں پر ہوئی ہے ۔جو اپنے قوم پر ہونے والی ظلم کو اس ریاست کے تشدد کو بیان کرنے کی طاقت رکھتے ہیں ۔

آج سیما بلوچ کی چھوٹی سے بیٹی شارل جو صحیح طور پر بول نہیں سکتی آج وہ اسی مزاحمت کو اپنی قومی جدو جہد کو اس ریاست کے ظلم کو اس شاہراہوں پر سیکھ رہی ہے اور اپنے توتلے لفظوں میں اس کے جبر کے خلاف مزاحمتی نعرے لگا رہی ہوتی ہے۔

بلوچ قوم کے عظیم رہنماؤں نے ہمیشہ اس ریاست کے تشدد کو بلوچستان کے سڑکوں پر آ کر اپنے قوم کو آگاہی دی ہے ۔بلوچ کے صرف دن نہیں ان کے راتیں بھی کئی کئی مہینوں تک ان سڑکوں پر گزری ہیں۔بھوکے ،پیاسے ننگے پاؤں اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف اپنی آواز کو بلند کرتے رہے ہیں ۔

ہمارے پڑھے لکھے نوجوانوں نے اپنا قومی فکر ، قومی نظریات کسی یونیورسٹیوں سے نہیں لی ۔ان بلوچ نوجوانوں نے اپنی کتابوں کا اسٹال کسی شاہراہ کے کنارے لگایا ہے ۔ان ہی سڑکوں کے کناروں پر بیٹھ کے اپنے قومی شناخت ، قومی تحریک اور قومی جہد کو پڑھا اور ،سیکھا اور برتھا ہے۔

ان ہی شاہراہوں سے آج بلوچ قوم کی تحریک کی انقلاب گونجنے کی صدا آرہی ہے ۔بلوچ قوم نے اپنی قومی ذمہ داریوں کا سوگند ہی یہیں سے لیا ہے ۔ان شاہراہوں سے اٹھنے والی تحریک بلوچ قوم کے نوجوانوں میں پختگی پیدا کر چکی ہے ۔وہ شعور کی بنیاد پر اپنا قومی سوال اٹھا رہی ہیں۔

آج بلوچ نوجوان جذباتی نہیں ،وہ اپنے قوم کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد اپنی قومی ذمہ داریوں کی طرف آگے بڑھ رہا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔