بلوچ قوم پرست رہنماء میر جاوید مینگل نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں بعض ممالک کی دوہری پالیسیاں اب بھی عالمی امن کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے، خاص طور پر جب بات جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے اور ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی سے نمٹنے کی ہو یہ غیر منصفانہ اقدامات پاکستان کے معاملے میں واضح ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے انتہا پسند گروپوں سے روابط ہیں اور جوہری ہتھیاروں کے ساتھ ایک قابل تشویش ماضی ہے، جس میں ایران، لیبیا اور شمالی کوریا کے ساتھ جوہری ٹیکنالوجی کا اشتراک بھی شامل ہے، اس کے باوجود اب بھی مغربی ممالک اور ساتھ ہی ساتھ دوسروں کی حمایت حاصل ہے اور پاکستان بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب بھی کررہی ہے جیسے جبری گمشدگیاں اور غیر قانونی قتل۔ تاہم دنیا اس بارے میں زیادہ تر خاموش ہے جسے بعض بلوچ عوام کی نسل کشی کہتے ہیں۔
میر جاوید مینگل نے کہا کہ پاکستان کی فوج، جس پر زیادہ تر صوبہ پنجاب کے لوگ کنٹرول کرتے ہیں، اکثر دو چہروں والی خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ یہ امریکہ، چین، روس اور ایران کے ساتھ بیک وقت اچھے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے حالیہ تنازعات پیدا ہوئے ہیں، جیسا کہ سویلین رہنما ایران کے لیے حمایت ظاہر کرتے ہیں، جب کہ فوج مغربی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرتی ہے۔ عالمی تجارت اور سلامتی کے لیے اس اہم خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر دنیا کی توجہ مرکوز ہے۔ لیکن اس جیو پولیٹیکل حساس خطے کے بیچ میں رہنے والے بلوچ عوام کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ان کی لڑائی صرف مقامی مسئلہ نہیں ہے۔ ان کا مستقبل آنے والے کئی سالوں تک خطے کے امن اور استحکام کو متاثر کرے گا۔