کوئٹہ: ماہ جبین کو بازیاب کرکے بلوچ طلبہ، خواتین اور عام شہریوں کو جینے کا بنیادی حق دیا جائے۔ لواحقین

83

جمعرات کے روز کوئٹہ پریس کلب میں جبری لاپتہ ماہ جبین بلوچ کے لواحقین نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم ایک بار پھر بلوچستان کے زخم کو لے کر آپ کے سامنے کھڑے ہیں۔ یہ کوئی نئی کہانی نہیں بلکہ ایک ایسا دکھ ہے جو برسوں سے ناسور بنتا جا رہا ہے۔ ہم اسی امید کے ساتھ مخاطب ہیں کہ ان دبی، ناتواں اور مسلسل نظر انداز کی جانے والی آوازوں کو میڈیا وہ جگہ دے گا جس کے وہ حقیقی معنوں میں مستحق ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا تعلق بیسیمہ، بلوچستان سے ہے اور ہم گزشتہ کئی برسوں سے شدید ریاستی جبر کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہمارے گھروں پر بارہا پاکستانی فورسز کی جانب سے چھاپے مارے گئے، ہمارے پیاروں کو گھروں سے اٹھا کر ان کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینکی گئیں، اور کئی افراد آج بھی جبری گمشدگی کے اندھیروں میں گم ہیں۔

لواحقین نے کہا کہ ہم ایک پُرامن، باعزت اور محفوظ زندگی گزارنے کا خواب دیکھتے رہے، لیکن ریاستی رویہ ہمیں بار بار یہ باور کراتا ہے کہ شاید یہ خواب صرف خواب ہی رہیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ چار روز قبل، 24 مئی کی رات دو بجے، ہمارے کزن محمد یونس کو پاکستانی فورسز کے اہلکاروں نے گھر پر چھاپہ مار کر زبردستی اغوا کر لیا۔ محمد یونس، خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی کے طالب علم ہیں — ایک محنتی نوجوان جو صرف علم کی روشنی میں اپنا مستقبل تلاش کر رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ گرفتاری کے وقت نہ کوئی وارنٹ دکھایا گیا، نہ کوئی وجہ بتائی گئی۔ ہم نے احتجاج نہیں کیا، صرف اس یقین پر خاموش رہے کہ چونکہ وہ بے گناہ ہے، اسے واپس کر دیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہماری خاموشی کو کمزوری سمجھا گیا۔ اور گزشتہ رات، ایک بار پھر رات کے تین بجے، محمد یونس کی بہن، ماہ جبین بلوچ کو بھی زبردستی لاپتہ کر لیا گیا۔ ماہ جبین بلوچستان یونیورسٹی میں بی ایس کمپیوٹر سائنس کی طالبہ ہے۔ چونکہ یونیورسٹی ہاسٹل میں جگہ دستیاب نہیں تھی، وہ عارضی طور پر سول ہسپتال میں مقیم تھی۔ ماہ جبین بچپن میں پولیو کا شکار ہو چکی ہے اور ایک پاؤں سے معذور ہے۔سوچیں! ایک معذور طالبہ کو رات کی تاریکی میں اغوا کیا جانا، ایک پورے معاشرے پر کیسا اثر ڈالتا ہے؟

انہوں نے کہا کہ کسی بیٹی کا جبری لاپتہ ہونا محض ایک واقعہ نہیں بلکہ اُس کی زندگی کی بربادی کا آغاز ہوتا ہے۔ عزت، تحفظ اور جینے کا حق — سب کچھ اس ایک ظلم سے چھن جاتا ہے۔

ہم ریاست، اس کے اداروں اور تمام انصاف پسند شہریوں سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے پیاروں کو فوری بازیاب کیا جائے اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔ بلوچ طلبہ، خواتین اور عام شہریوں کو جینے کا بنیادی حق دیا جائے۔

آخر میں انہوں نے کہا: اگر ہمیں جینے کا بنیادی حق نہیں دیا جا سکتا، اگر ہماری خاموشی کو یوں کچلا جاتا رہے گا، تو ہمیں ایک بار ہی مار دیا جائے — کیونکہ ہم اس مسلسل خوف، اذیت اور ذلت کی زندگی کو مزید نہیں جینا چاہتے