بلوچستان کے ضلع آواران کے تحصیل جھاؤ سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ ہونے والے نوجوان درمان ولد رحیم بخش کی لاش برآمد کرلی گئی ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق درمان بلوچ کو جھاؤ کے علاقے چھبّی میں واقع فرنٹیئر کور “ایف سی” کیمپ میں طلب کیا گیا، جہاں سے انہیں حراست میں لے کر لاپتہ کر دیا گیا تھا، آج ان کی تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی ہے، جس کے بعد لواحقین اور مقامی آبادی نے اسے ماورائے عدالت قتل قرار دیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آواران سمیت بلوچستان کے کئی علاقوں میں پاکستانی فورسز مقامی باشندوں کو “تفتیش” کے نام پر کیمپ میں بلا کر حراست میں لیتی ہیں، جہاں بعض کو تشدد کے بعد رہا کردیا جاتا ہے، جبکہ کئی افراد کو غائب یا قتل کردیا جاتا ہے۔
اس واقعے سے قبل 26 مئی کو آواران کولواہ میں پاکستانی فورسز نے ایک اور نوجوان غوث بخش کو ایف سی کیمپ طلب کر کے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جس کے چند گھنٹوں بعد ان کی لاش پھینک دی گئی تھی۔
صرف جھاؤ میں گزشتہ 10 دنوں کے دوران یہ دوسرا واقعہ ہے جس میں ایک نوجوان کو تفتیش کے نام پر بلا کر قتل کیا گیا۔ صحافیوں کے مطابق اسی دوران ضلع آواران کے مختلف علاقوں میں کم از کم نو شہری پاکستانی فورسز کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں۔
علاوہ ازیں 26 اور 27 مئی کی درمیانی شب فورسز نے آواران کے علاقے مالار مچھی میں گھروں پر دھاوا بول کر متعدد رہائشیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا، اس دوران فورسز کی فائرنگ سے نعیم بلوچ اور ان کی خالہ حوری موقع پر ہی جانبحق ہو گئے، جبکہ نعیم بلوچ کی والدہ شدید زخمی ہوئیں تھے۔
ان واقعات کے خلاف بلوچ وومن فورم کی جانب سے گذشتہ رواز آواران میں مکمل ہڑتال کی گئی، جبکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ان کارروائیوں کی سخت مذمت کی ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق صرف آواران اور مشکے میں گزشتہ چند دنوں کے دوران درجنوں افراد ماورائے عدالت قتل یا جبری گمشدگی کا شکار ہوئے ہیں لیکن ملکی میڈیا خاموش ہے جبکہ بین الاقوامی سطح پر بھی تاحال کوئی مؤثر ردعمل سامنے نہیں آیا۔
بی وائی سی اور بلوچ وومن فورم نے اقوامِ متحدہ، عالمی انسانی حقوق کے اداروں اور بین الاقوامی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ ان واقعات کی آزاد شفاف اور بین الاقوامی تحقیقات کرائیں۔
ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ واقعات انفرادی نہیں بلکہ ریاستی پالیسی کا حصہ ہیں جن کا مقصد بلوچ قوم کی شناخت، مزاحمت اور وجود کو ختم کرنا ہے۔