بلوچ ڈاکٹرز فورم کے ترجمان نے جاری کردہ بیان میں کہا میں سرکاری جبر کی انتہا ہو چکی ہے اور اب تعلیم یافتہ باشعور اور عوامی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے بلوچ پروفیشنلز کو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری ریاستی جبر کی بدترین شکل ہے جو کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں اس سے پہلے ڈاکٹر الیاس بلوچ کو نشانہ بنایا گیا اور اب ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری واضح کرتی ہے کہ ریاست نے فیصلہ کر لیا ہے کہ بلوچ پروفیشنلز کو دیوار سے لگا دیا جائے۔
بلوچ ڈاکٹر فورم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حکومت کے یہ اقدامات کسی بھی جمہوری اور قانونی اصولوں کے مطابق نہیں ہیں بلکہ یہ بلوچ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی ایک منظم منصوبے کا حصہ ہیں ایک سازش کے تحت بلوچوں کو ہر شعبے سے بےدخل کر کے ان کی جگہ دوسرے لوگوں کو مسلط کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا پہلے تعلیمی اداروں میں بلوچ طلبہ کو نشانہ بنایا گیا پھر بلوچ اساتذہ اور اب ڈاکٹرز کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے اس جبر سے بلوچ قوم کے تمام مکتبہ فکر متاثر ہورہے ہیں ۔
انکا مزید کہنا تھا بلوچ ڈاکٹرز فورم واضح کرنا چاہتا ہے کہ اگر ریاست نے یہی روش جاری رکھی اور بلوچ پروفیشنلز کو ہراساں کرنے جبری گمشدگیوں اور بے بنیاد مقدمات کے ذریعے دبانے کی کوششیں نہ روکی گئیں تو ہم مجبور ہوں گے کہ اجتماعی سطح پر اپنے فرائض کی انجام دہی سے دستبردار ہو جائیں۔
انہوں نے کہا ریاست ہمارے صبر کا امتحان نہ لے کیونکہ اس کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے آخر میں کہا ہے کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو فوری طور پر رہا کرے اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں غیر قانونی گرفتاریوں اور بلوچ پروفشنلز کے خلاف امتیازی پالیسیوں کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جائے اگر یہ ناانصافی جاری رہی ہمیں سخت سے سخت اقدام اٹھانے پر مجبور ھونگے اور اسکی تمام تر نتائج کی ذمہ دار حکومت ہوگی۔