بی ایل اے کا ڈھاڈر آپریشن ایک تاریخی کاروائی
تحریر: دودا بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
صبح کے تقریباً 10 بجے کا وقت تھا جب بی ایل اے نے ایک زبردست اور پُراثر اسٹیٹمنٹ جاری کیا، جس میں اعلان کیا گیا کہ بی ایل اے کے سرمچاروں نے جعفر ایکسپریس پر کامیاب قبضہ کر لیا ہے۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے بین الاقوامی میڈیا پر بریکنگ نیوز بن گئی۔ پاکستان کے ریاستی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی، جبکہ بلوچ عوام کے لیے یہ آپریشن ایک نئی امید، ایک نیا حوصلہ بن کر ابھرا۔ بی ایل اے کے اس حملے نے نہ صرف پاکستانی فوج کے ہوش اڑا دیے بلکہ عالمی سطح پر بھی یہ پیغام بھیج دیا کہ بلوچ مزاحمت کمزور نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے زیادہ منظم، مضبوط اور جنگی مہارتوں میں برتر ہو چکی ہے۔
بی ایل اے کے سرمچاروں نے مہارت، منظم حکمتِ عملی اور اعلیٰ جنگی قابلیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس آپریشن کو انتہائی کامیابی سے مکمل کیا۔ اس کارروائی میں بی ایل اے کے مختلف یونٹس نے کلیدی کردار ادا کیا، جن میں مجید بریگیڈ، فتح اسکواڈ، اس ٹی او اس اور زراب انٹیلیجنس ونگ شامل تھے۔ ہر یونٹ نے اپنی مخصوص صلاحیتوں کے مطابق کام کیا، جس کی وجہ سے یہ آپریشن مکمل نظم و ضبط اور مہارت کے ساتھ انجام پایا۔ یہ آپریشن کئی مہینوں کی منصوبہ بندی، انٹیلیجنس معلومات اور عسکری حکمتِ عملی کی کامیابی کا نتیجہ تھا، جسے سرمچاروں نے انتہائی مہارت اور جرات کے ساتھ مکمل کیا۔
بی ایل اے کے سرمچاروں نے پہلے مرحلے میں ٹرین کو قابو میں لیا اور یرغمالیوں کی شناخت شروع کی۔ اس کارروائی کے دوران تقریباً 500 کے قریب افراد یرغمال بنے، جن میں زیادہ تر پاکستانی فوج کے اہلکار شامل تھے۔ بی ایل اے نے اپنی روایتی انسانی ہمدردی، اصول پسندی اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عام شہریوں، خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو فوری طور پر رہا کر دیا، جبکہ فوجیوں کو اپنی تحویل میں رکھا۔ ساتھ ہی پاکستان کو 48 گھنٹوں کی مہلت دیتے ہوئے بلوچ سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
بی ایل اے کا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ اس کی جنگ صرف قابض پاکستانی فوج اور ریاستی اداروں کے خلاف ہے، نہ کہ عام شہریوں کے خلاف۔ اس آپریشن میں بھی اسی اصول پر عمل کیا گیا۔ خواتین، بچے اور عام پاکستانی مسافر فوراً رہا کر دیے گئے، جبکہ وہ فوجی جو بلوچستان پر قابض قوتوں کا حصہ تھے، بی ایل اے کی کسٹڈی میں رکھے گئے۔ یہ ایک واضح پیغام تھا کہ بی ایل اے ایک منظم اور اصولوں پر چلنے والی مزاحمتی فورس ہے، جو جنیوا کنونشن اور بین الاقوامی جنگی قوانین کی پاسداری کرتی ہے۔
پاکستانی فوج نے ہمیشہ کی طرح بے حسی کا ثبوت دیا اور اپنے ہی فوجیوں کی زندگیوں کی پرواہ کیے بغیر بی ایل اے کی تحویل میں موجود فوجیوں پر میزائل داغ دیے۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ پاکستان کو اپنے فوجیوں یا شہریوں کی کوئی فکر نہیں، بلکہ وہ صرف طاقت کے نشے میں بے گناہوں کی جان لینے پر تلا ہوا ہے۔ بی ایل اے نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پاکستان کو وارننگ دی، مگر جب دشمن اپنی جارحیت سے باز نہ آیا تو بی ایل اے نے 10 مزید فوجیوں کو ہلاک کر دیا، تاکہ پاکستان پر یہ واضح ہو جائے کہ بلوچ مزاحمت کمزور نہیں بلکہ پہلے سے زیادہ منظم اور طاقتور ہے۔
یہ آپریشن اس حقیقت کو مزید پختہ کرتا ہے کہ پاکستان نہ تو اپنے عوام اور فوجیوں کی جانوں کی پرواہ کرتا ہے اور نہ ہی کسی بین الاقوامی قانون کو تسلیم کرتا ہے۔ دوسری طرف، بی ایل اے نے اپنی جنگی حکمتِ عملی، نظم و ضبط، صلاحیت اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کو دنیا کے سامنے ثابت کر دیا۔ یہ کارروائی اس امر کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے کہ بی ایل اے ایک محض عسکری گروہ نہیں بلکہ ایک منظم قومی مزاحمتی فورس ہے، جو بلوچ قوم کی آزادی کے لیے ایک مکمل نیشنل آرمی کی طرح لڑ رہی ہے۔
یہ آپریشن بی ایل اے کی جنگی مہارت، اس کی جدید حکمت عملی، اس کے ڈسپلن اور مزاحمتی قوت کا عکاس تھا۔ اس نے دنیا پر واضح کر دیا کہ بی ایل اے محض پہاڑوں میں لڑنے والا ایک روایتی گوریلا گروہ نہیں بلکہ ایک منظم اور جدید جنگی حکمتِ عملی اپنانے والی طاقتور مزاحمتی فورس ہے۔ اس آپریشن کے بعد پاکستانی فوج بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی اور اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے پروپیگنڈا مشینری کا سہارا لینے لگی۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ بی ایل اے نے ایک ایسا آپریشن کیا جو بلوچستان کی مزاحمتی تحریک کی تاریخ میں ہمیشہ ایک سنہری باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
بی ایل اے نے اپنی جدوجہد کے آغاز سے لے کر آج تک ہر کارروائی میں ثابت کیا ہے کہ وہ ایک مضبوط اور ناقابلِ تسخیر قوت ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی سرگرمیاں مزید مؤثر اور شاندار ہوتی جا رہی ہیں، اور یہ بلوچ نوجوانوں کی قیادت میں ایک جدید اور طاقتور تنظیم کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔
یہ جنگ بلوچستان کی مکمل آزادی تک جاری رہے گی۔ شہداء کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ آخری سانس، آخری گولی اور آخری بلوچ تک یہ جدوجہد جاری رہے گی، اور فتح بلوچ قوم کا مقدر بنے گی۔
یہ وہی نوجوان ہیں جو پہاڑوں کی سخت سردی اور جھلسا دینے والی گرمی میں بغیر کسی سہولت کے، سخت ترین حالات میں، بھوک اور پیاس جھیلتے ہوئے، اپنے اہلِ خانہ کی محبتوں سے دور، بلوچستان کے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنا چکے ہیں۔ وہ اس لیے لڑ رہے ہیں کیونکہ بلوچستان ان کی سرزمین ہے، اور اس کی حفاظت ہر بلوچ کا مقدس فرض ہے۔ یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک بلوچستان آزاد نہیں ہو جاتا، کیونکہ یہی فطرت کا اصول ہے کہ غلامی کے خلاف جدوجہد کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔
بلوچستان کے پہاڑوں میں چلنے والی یہ جنگ صرف زمین کی جنگ نہیں، یہ ایک قوم کی بقا، اس کی عزت، اس کے تشخص، اور اس کی آنے والی نسلوں کے مستقبل کی جنگ ہے۔ بی ایل اے کے سرمچار اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر ہر روز ایک نئے محاذ پر لڑ رہے ہیں، دشمن کو شکست دے رہے ہیں اور اپنی قوم کے لیے ایک آزاد، خودمختار اور باوقار بلوچستان کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔
یہ جنگ اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک بلوچستان آزاد نہیں ہو جاتا. بلوچ سرمچار آخری سانس، آخری گولی اور آخری بلوچ تک لڑیں گے، کیونکہ آزادی قربانی مانگتی ہے، اور یہ قربانی دینے کے لیے بلوچ قوم ہمیشہ تیار ہے۔ دشمن کی فوجیں آتی رہیں گی، ان کے جنگی جہاز گرجتے رہیں گے، ان کے میزائل برستے رہیں گے، لیکن پہاڑوں میں بلوچ سرمچار ہمیشہ ڈٹے رہیں گے جو اپنے وطن، اپنی مٹی، اپنی ماں، اور اپنے خوابوں کے تحفظ کے لیے لڑ رہے ہیں۔
بلوچستان آزاد ہوگا، کیونکہ تاریخ نے ہمیشہ ثابت کیا ہے کہ ظلم ہمیشہ شکست کھاتا ہے، اور آزادی ہمیشہ جیتتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔