طالب: ذمہ داری کا اعلیٰ معیار – ملا امین

120

طالب: ذمہ داری کا اعلیٰ معیار

تحریر: ملا امین

دی بلوچستان پوسٹ

ویسے تو شہیدوں کے درمیان فرق نکالنا مناسب نہیں کیونکہ تمام شہداء کے بہتے ہوئے خون اور قربانیوں کی بدولت آج تحریک اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ لیکن بعض ساتھی ایسے ہوتے ہیں جن کا کردار مختلف محاذوں، جنگوں یا تحریکوں میں نمایاں ہوتا ہے۔ ان کی قربانیاں دوسروں سے منفرد نظر آتی ہیں۔ جیسے شہید مجید، شہید ریحان، شہید جنرل اسلم، شہید شاری، اور کئی دیگر سنگت، جن کے کردار کی تعریف ہر محفل اور محاذ پر کی جاتی ہے۔ ان کے اعمال خود ان کی شخصیت کی خوبصورتی اور عظمت کے عکاس ہیں، اور ہم، نہ چاہتے ہوئے بھی، ان کی تعریف کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

ایسے ہی ایک عظیم کردار کا نام شہید طالب ہے۔ شہید طالب کو آج پوری بلوچ قوم اپنا ہیرو تصور کرتی ہے۔ شاید قوم انہیں صرف ایک عمل کی وجہ سے جانتی ہے، لیکن طالب اس کے علاوہ بھی ایک عظیم کردار تھا۔ وہ ساتھی جو طالب کو قریب سے جانتے تھے، آج بھی ان کی کمی شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ ان کی سادگی، محنت اور خلوص نے ہمیں اس قدر متاثر کیا کہ ان کی غیر موجودگی ہمیں افسردہ کر دیتی ہے۔ لیکن ہم ایک ایسے بے رحم دشمن سے برسرِ پیکار ہیں، جس کی وجہ سے ہمیں اپنے ہزاروں نوجوانوں کی قربانی دینی پڑی، جو شاید ناگزیر تھی۔

طالب اپنا ہر کام انتہائی ذمہ داری سے انجام دیتا تھا۔ جب کبھی وہ اوتاک میں کور کمانڈر ہوتا، تو سب سے پہلے خود اٹھ کر چائے بناتا، آٹا گوندھتا، لکڑیاں لاتا اور ہر چھوٹے بڑے کام میں پیش پیش رہتا۔ جنگ کے دوران وہ ہمیشہ فرنٹ لائن پر رہتا۔ لاغر بدن کے باوجود وہ بھاری فوجی ساز و سامان، مثلاً میگزین، ہینڈ گرنیڈ، اور گرنیڈ لانچر کے گولے اٹھائے رکھتا۔ اس کی بندوق ہمیشہ صاف ستھری رہتی۔ طالب کبھی اپنی ذمہ داری میں کوتاہی نہیں کرتا تھا اور نہ ہی دوسروں کی غیر ذمہ داری کو برداشت کرتا تھا۔

جب طالب نے فدائی بننے کا فیصلہ کیا، تو سب سے پہلے اس نے سارو کے مقام پر ہمیں اطلاع دی۔ ہم نے اسے فیصلے پر نظرثانی کرنے کا مشورہ دیا، لیکن وہ اپنے ارادے پر اٹل رہا۔ 2024 میں، اسے آپریشن درہ بولان کے لیے بطور فدائی چنا گیا اور مچھ ریلوے اسٹیشن کی ذمہ داری سونپی گئی۔ دو دن تک وہ دشمن کے لیے خوف کی علامت بنا رہا، لیکن جب مرکزی کمانڈر نے پیچھے ہٹنے کا حکم دیا، تو وہ اپنے گروپ کے ساتھ ریشی کی طرف لوٹ آیا۔

طالب نے “آپریشن ہیروف” کے لیے اپنی ٹیم کے ساتھ تیاری کی۔ اس کے گروپ میں نو ساتھی شامل تھے، جن میں دو فدائی، شہید خالد اور شہید نوید، مشن پر جاتے ہوئے راستے میں شہید ہوئے۔ دیگر ساتھیوں نے اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائیں، لیکن طالب نے بہترین انداز میں گروپ کو لیڈ کیا۔ جنگ کے دوران، طالب زخمی ہوا لیکن زخمی حالت میں بھی لڑائی جاری رکھی۔ ساتھیوں کے اصرار کے باوجود، اس نے مورچہ نہیں چھوڑا۔

جنگ کے آخری لمحات کی تصاویر سے معلوم ہوتا ہے کہ طالب اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے شہید ہوا۔ اس کی شہادت نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایک بے مثال جنگجو اور قیادت کے اعلیٰ معیار کا مالک تھا۔

طالب محبت، وفاداری اور ذمہ داری کا سر چشمہ تھا۔ ہم بلوچ قوم تمام شہداء کے مقروض ہیں، جن کی قربانیاں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ طالب کی یادیں ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی۔ انمول طالب، آپ کی کمی کبھی پوری نہیں ہو سکے گی۔ ہم آپ کے قرض دار ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔