ہمسایہ ممالک بلوچ مہاجرین کو انسانی بنیادوں پر مدد اور تحفظ فراہم کریں۔ ماما قدیر بلوچ

54

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا ہماری جدوجہد بلوچ قوم کے انسانی حقوق کی بحالی کے لیے ہے، ریاست پاکستان کے اندر ہمیں ان تمام انسانی حقوق سے محروم کیا گیا ہے جو عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہیں۔ اس لیے ہم عالمی اداروں سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی بحالی اور جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

ماما قدیر بلوچ کے سرپرستی میں جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ کے 5680 ویں روز جاری رہا۔

اس موقع پر لسبیلہ سے کنٹریکٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن کے ایک وفد نے کیمپ آکر جبری لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کیا۔

انھوں نے کہا جبری گمشدگی کا سیاسی پس منظر ہوسکتا ہے لیکن یہ عمل انسانیت کے خلاف ہے اور کسی ایک سیاسی جماعت ، تنظیم ، گروہ کا مسئلہ نہیں بلکہ انسانی مسئلہ ہے اس لیے ہم سب کو اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے کیونکہ پورا بلوچستان اس بحران کے لپیٹ میں ہے۔

ماما قدیر نے کہا کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز پرامن طریقے سے جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ہر فورم پر جدوجہد کر رہی ہے۔لیکن ریاست پاکستان کے طاقتور لوگوں کو یہ پرامن جدوجہد بھی ہضم نہیں ہوتا ۔ کئی بار بھوک ہڑتالی کیمپ کو جلایا گیا مگر اس طرح کے ہتھکنڈے کارگر نہیں ہوں گے ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے کیونکہ یہ ہماری اور انسانیت کی بقا کی جنگ ہے۔

انھوں نے کہا جبر کے نتیجے میں ہزاروں خاندان بلوچستان سے ہجرت پر مجبور ہوچکے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں بچے ، خواتین اور بوڑھے ہمسایہ ممالک ایران اور افغانستان میں اپنے عزیزوں کے پاس پناہ لیے ہوئے ہیں۔اتنے بڑے بحران اور اتنی بڑی تعداد میں ہجرت کے باوجود عالمی سطح پر اس معاملے کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ افغانستان اور ایران میں بلوچ مہاجرین کو حکومت اور بین الاقوامی اداروں کی طرف سے مناسب مدد اور حمایت نہ ہونے کی وجہ سے وہاں لوگ غیرمحفوظ ہیں۔بزرگ بلوچ رہنماء استاد واحد کمبر کو ایران اور محمود لانگو کو افغانستان سے اغواء کرکے پاکستان لاکر جبری لاپتہ کردیا گیا ہے۔دونوں کو بازیاب کرکے ان کے خاندان کو اذیت سے نجات دلایا جائے اور متاثرین کو اںصاف فراہم کیا جائے۔

ماما قدیر نے کہا ہمسایہ ممالک اور عالمی اداروں کو چاہیے کہ پاکستان کی سرحدوں کے باہر انسانی بنیادوں پر بلوچوں کی مدد کریں۔ انھیں مہاجرین کا درجہ دے کر صحت ، تعلیم اور سفر کی سہولیات سمیت قانونی تحفظ فراہم کیا جائے۔