نیشنل پارٹی کا دورہ چین، غداری اور لوٹ مار کے معاہدے!
حصہ دوئم
تحریر: رامین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اس میں کوئی مغالطہ نہیں کہ نیشنل پارٹی نے اپنے ابتدائی دنوں سے پاکستانی نیشنلزم (جس کی نہ سر ہے نہ پاؤں) کے نام پر کام کرنے کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے۔ اور آج سرفراز حکومت میں بطور ریاستی آلہ کار پارٹی کے طور پر ان کا کردار اتنا بے شرم ہو چکا ہے کہ ان کی خجالت اور شرم کی کوئی حد باقی نہیں رہی۔ نیشنل پارٹی کی پوری تاریخ اور کردار کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ان کا مقدر ریاستی گماشتگی پر مبنی ہے۔ اس کے علاوہ ان کا ماضی میں کوئی درخشاں کردار نہ تھا، نہ اب ہے جسے قابلِ ستائش قرار دیا جا سکے۔
ڈاکٹر مالک کے بارے میں یہ انکشاف سو فیصد حقیقت پر مبنی ہے کہ ڈاکٹر مالک کسی کرنل یا میجر کی رضامندی اور اجازت کے بغیر واش روم بھی نہیں جاتا۔ اگر نیشنل پارٹی کے اس گھٹیا درجے کی کل وقتی کردار پر نظر مرکوز کی جائے تو نیشنل پارٹی کے حالیہ دورہ چین اور پنجابی ریاست اور چین کے درمیان معاہدات میں ہم پلہ ہونا کوئی نیا اضافہ نہیں ہے، بلکہ اس کی تاریخ اور حال دونوں داغدار ہیں۔ اور یہ ریاستی جنگی جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔ تاریخ کی آنکھ سے وہ بچ کر نہیں رہ سکتے؛ تاریخ کا بے رحم پنجہ ہمیشہ ان کی سراغ رسانی کرتا رہتا ہے۔
نیشنل پارٹی کے حالیہ دورہ چین سے ہم ان کی غداری کا جائزہ نہیں لیتے بلکہ ان کی غداری کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ غداری ہی ان کی میراث رہی ہے۔ یہ کوئی مڈل کلاس پارٹی نہیں، بلکہ ایک “ملٹی کلاس” کا مکسچر “ملٹری کلاس” پارٹی ہے۔ بی این وائی ایم سے لے کر بلوچستان نیشنل مومنٹ تک ان کی غداری ظاہر ہے کہ انہوں نے فدا بلوچ کو اپنی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر شہید کروایا، بی این وائی ایم کی پالیسیوں میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کیوں کی؟ اور آزادی کے اصولی موقف سے منحرف ہو کر بی این وائی ایم کی بنیادی اساس سے غداری کی۔
ان پارٹیوں میں رہ کر ان کے چھتری تلے وہ کس کے لیے کام کر رہے تھے؟ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں جس سے ہم لاعلم رہیں۔ اور اسی طرح بعد میں “بلوچستان نیشنل موومنٹ” کے اساسی پروگرام کو سبوتاژ کرنے میں ان کا کیا کردار تھا؟ وہ آزادی کے درست بیانیہ پر کیوں یکجا ہو کر کوئی ٹھوس موقف نہ اپنا سکے؟ بلکہ ان پارٹیوں کے تہوں میں رہ کر ریاستی گماشتگی کے ریہرسل کرتے رہے۔
بلوچ عوام کو صوبائی خودمختیاری، ساحل و وسائل، حاکمیت، حقوق کی بحالی سمیت “امپریلسٹ جمہوریت”، عدلیہ کی آزادی، آئین کی بحالی اور نئے عمرانی معاہدوں کے نام پر لاتعداد دھوکہ دیتے رہے۔ اور ایک حقیقی اور جرات مندانہ تحریک اور قیادت کو ہمیشہ اپنے لیے خطرہ سمجھتے رہے تاکہ ان کے اور پاکستانی ریاست کے مابین تعلقات میں خلیج پیدا نہ ہو، بلکہ وہ بلوچستان میں ریاستی مشینری کو چلانے میں کل پرزے ثابت ہوئے اور ریاستی منڈیوں میں خود کو بار بار نیلامی کے لیے پیش کرتے رہے۔
یہی وہ بنیادی وجوہات ہیں کہ بلوچ نیشنل موومنٹ کے اولین چیئرمین شہید غلام محمد بلوچ اور مرکزی سیکریٹری جنرل شہید لالہ منیر سمیت ان کے دیگر نظریاتی ساتھیوں نے ان سے اپنی راہیں الگ کر کے واضح قومی اہداف کا تعین کرتے ہوئے “بلوچ نیشنل موومنٹ” کی بنیاد رکھی اور ان کے اصلاحاتی اور وطن فروشانہ کردار کو مکمل طور پر بے نقاب کیا۔
نیشنل پارٹی کا کردار شروع ہی سے بلوچ قوم کے نظروں میں بے پردہ رہا ہے۔ ان کی بلوچ دشمنی کی تاریخ بہت پرانی ہے اور وہ ابتدائی دنوں سے مرحلہ وار بلوچ قوم کے ساتھ دغا بازی کرتے آرہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی سیاسی ابھار ریاستی پشت پناہی اور سرپرستی میں ہوا۔ ہمارے نزدیک “باپ” پارٹی اور نیشنل پارٹی میں کوئی منفرد فرق نہیں، بلکہ دونوں کا کردار یکساں طور پر ریاستی گماشتگی پر مبنی ہے، اور یہ ایک دوسرے کا تسلسل ہیں۔ البتہ نیشنل پارٹی رسمی ناٹک کے ذریعے کبھی کبھی بلوچ کا نام استعمال کر کے بلوچ عوام کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہے تاکہ دو طرفہ کھیل کھیل کر بلوچ عوام میں اپنی ساکھ نہ کھو سکے۔ حالانکہ اگر ایمانداری سے تجزیہ کیا جائے تو نیشنل پارٹی اپنی دوغلی اور گرگٹی پالیسیوں کی وجہ سے بلوچ عوام میں اپنی ساکھ کھو چکی ہے۔ ان کے ہاتھ سے سٹریٹ پاور نکل چکا ہے اور ان کے بیانیے کے خلاف شدید غصہ پایا جاتا ہے، جس کا اظہار وقتاً فوقتاً بلوچ سماج میں ہوتا ہے۔
سائیکو پولیٹکس کا یہ ہنر انہیں سکھایا گیا۔ لیکن وہ اس پیمانہ کے بیانیوں سے اپنی گناہ اور مجرمانہ کردار سے استثنیٰ حاصل نہیں کر سکتے اور نہ ہی تاریخ کے احتساب سے معاف ہو سکتے ہیں۔ بلوچ قوم ان کی روایتی غداریوں کا ایک ایک پائی کا حساب لے گی اور وقت آئے گا کہ آزاد بنگلہ دیش میں غدار جماعت اسلامی کے ساتھ جو رویہ اپنایا گیا، تاریخ خود کو یہاں بھی دہرا سکتی ہے۔
2013 میں ڈاکٹر مالک کی کٹھ پتلی دور حکومت کو اگر اسلم رئیسانی کی کٹھ پتلی حکومت سے موازنہ کیا جائے، تو ڈاکٹر مالک بلوچ قوم پرستی کے دعوے کے باوجود نہ صرف نام نہاد چین و پاکستان اقتصادی راہداری کی طاقت ور حمایت کی، بلکہ 2004 میں سی پیک کے حوالے سے معاہدوں کے پہلے مرحلے کا آغاز نیشنل پارٹی کی 2013 کے کٹھ پتلی حکومتی ادوار میں ہوا۔ جو بلوچ قومی مرکزیت، رضا مندی، قومی مفادات کے ساتھ ٹکراؤ کی پالیسی تھی، جہاں بلوچ قومی مفادات اور بلوچستان کے متنازعہ اور حساسیت کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔ بلکہ ان کی حکومت کی بیشتر پالیسیاں اور مکروہ اقدامات نوآبادیاتی پالیسیوں کو دوام بخشنے کے مترادف تھے جو نوآبادیاتی جارحانہ انداز کی عکاسی کرتے ہیں۔
اگر ایمانداری سے کہا جائے تو نیشنل پارٹی کے کٹھ پتلی دور حکومت میں بلوچ شہداء کی گمنام اجتماعی قبروں کے منظر عام پر آنے والے سنگین اور دل دہلا دینے والے واقعات کے باوجود، نیشنل پارٹی حکومت اس معاملے پر تحقیقات کے بجائے مٹی ڈال کر شفیق مینگل کو جوابدہ ٹھہرانے کے بجائے، دولت جمع کرنے کی بے انتہا ہوس میں پنجابی امپریلسٹ کی شاہی وفاداری میں ہر حد پار کر کے شفیق مینگل سے دوستی کے لئے ہاتھ بڑھاتی رہی ہے۔ ان کی رفاقت کی سینکڑوں ایونٹس اور تصاویر ان کے رابطے، تعاون، اور معاونت کا مستند ثبوت ہیں۔ بلوچ قوم کی تذلیل، تباہی، جبری گمشدگیوں میں شدت، سیاسی کارکنوں کی اغوا، “مارو اور پھینکو” کی پالیسیوں کو بنیاد فراہم کرنے میں نیشنل پارٹی کے مکروہ کردار ہمارے یادداشتوں کا اٹوٹ حصہ ہے، جسے بلوچ قوم کسی بھی صورت نہیں بھلا سکتی۔
اگرچہ اب بھی جبری گمشدگیوں کے واقعات میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے، جو سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں، جہاں بغیر کسی عدالتی یا اوپن ٹرائل کے بلوچ فرزندوں کو اغوا کیا جاتا ہے، جو روز کا معمول بن چکا ہے۔ یہ بلوچ قوم کے لئے ذہنی، نفسیاتی، جذباتی، اخلاقی اور سماجی تکلیف سے کم نہیں ہے، لیکن ریاست کے اس پیمانہ کے جارحانہ جنگی جرائم کو جواز بخشنے کے لئے نیشنل پارٹی نے بنیادیں فراہم کیں۔
آج جس بے رحمانہ بربریت کی اذیت و آزمائش، خوف زدہ کرنے کے حربے، انسانی حقوق کے خلاف ورزی کے لئے اٹھنے والی آوازوں کو دبانے اور کچلنے کے المیوں سے بلوچ عوام سامنا کر رہے ہیں، اس میں نیشنل پارٹی سمیت ریاست کے ساتھ ہاتھ ملانے والے ہر فرد اور جماعت کا کردار شامل ہے۔ یہاں میں غلط نہیں ہوں کہ، آج نیشنل پارٹی غداری اور بلوچ قوم کے ساتھ دغابازی کے اس نہج پر پہنچ چکی ہے، جس میں سطحی اصلاحات کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ بلکہ اسے بہرحال ذمہ دار اور جوابدہ ٹھہرا کر ان کے مکروہ اعمال کا حساب لیا جائے۔
ذکر ہے نیشنل پارٹی کے ایک وفد کا کبیر محمد شہی کی سربراہی میں گیارہ روزہ دورہ چین کے بارے میں، کہ اس دورے کے بنیادی مقاصد اور ترجیحات کس نوعیت کی تھیں؟ اور اس میں شامل فریقین کے مفادات کیا تھے؟ جس میں ایک بار پھر نیشنل پارٹی بلوچ خونریزی کے ان استعماری پالیسیوں میں حصہ دار اور اتحادی بننے کے لئے خود کو سرعام نیلام کرنے پر تلا ہوا ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ نیشنل پارٹی بلوچ وطن میں جاری تشویش ناک صورتحال سے خود کو پہلے بھی لاتعلق سمجھ چکا ہے اور اب بھی وہی پرانی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
نیشنل پارٹی کا دورہ چین کوئی تفریحی یا سیاحتی دورہ نہیں تھا۔ بلکہ یہ ایک اہم نوآبادیاتی مشن تھا، جس کا مقصد نام نہاد سی پیک اور چین و پاکستان مفادات، اور بلوچ سرزمین پر ہونے والے معاہدات، چینی سامراجی مفادات کو تقویت دینا تھا۔ جہاں بلوچستان میں چین کے عزائم میں شامل “بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو” پر از سر نو غور کرنے اور بلوچ قومی قوتوں کے چیلنجز سے نمٹنے، اور چین کی سرمایہ کاری اور انفراسٹرکچر منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے راہ ہموار کرنے کے “سازشی عسکری جرائم” کا حصہ بننا تھا تاکہ کمزور پڑتے چینی استحصالی انفراسٹرکچر اور مجرمانہ مقاصد کی حصول میں ناکامی اور بحران کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کی جا سکے، تاکہ منہدم ہوتے غیر مؤثر منصوبوں کو آکسیجن دیا جا سکے، جو بلوچ مزاحمت کے سبب “وینٹی لیٹر” پر ہیں، اور انہیں دوبارہ زندہ رکھا جا سکے، جنہیں بلوچ وطن میں چیلنجز کا سامنا ہے۔
یہ ریکارڈ پر ہے کہ بلوچ قومی مزاحمت کی پیش قدمی، غیر متزلزل ارادے اور فیصلہ کن جدوجہد کی وجہ سے چین کی معاشی و عسکری عزائم کو بلوچستان میں سخت عزیمت کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے داخلی سیکورٹی خدشات کے باعث تیسری بار گوادر ایئر پورٹ آپریشنل نہیں ہو سکا، اور اس کی افتتاحی تقریب مسلسل تعطل کا شکار ہے۔ بلوچ قومی جدوجہد کی کامیابی کے پیش نظر، گوادر پورٹ کا ورچوئل افتتاح رواں سال اسلام آباد میں مضحکہ خیز انداز میں کیا گیا، جو بلوچ قومی تحریک کی کامیابی ہے۔
بلوچ تحریک آزادی کی فعال اور سرگرم پیش قدمیوں اور برق رفتاری کے باعث پاکستانی ریاست اور چین اس حد تک خوف کا شکار ہیں کہ وہ سیکورٹی خدشات کے پیش نظر گوادر پورٹ کا آن لائن ڈیجیٹل افتتاح کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ جہاں چین نے گوادر ایئر پورٹ کی تعمیر اور دیگر انفراسٹرکچر کی مد میں 55 ارب روپے کی مالیت کی سرمایہ کاری کرنے کے باوجود اسے آپریشنل کرنے میں خوف محسوس کیا ہے، جو ان کی سیاسی، نفسیاتی، اعصابی اور ذہنی تناؤ اور شکست کا پیش خیمہ ہے۔
نیشنل پارٹی کے حالیہ دورے میں بھی سرفہرست ایجنڈا نام نہاد سی پیک (CPEC) رہا ہے، جہاں نیشنل پارٹی کے وفد نے سی پیک منصوبوں کو مؤثر بنانے کے لئے مختلف نوعیت کی سازشی تجاویز اور مجرمانہ مشورے دیے ہیں، جن میں چین و پاکستان نام نہاد اقتصادی راہداری، جو سنکیانگ سے لے کر گوادر تک ایکسپریس سڑک کے منصوبے، اور مستقبل میں ایک ریلوے لائن بچھانے کا ڈھانچہ، گوادر پورٹ کا بطور “بحری تجارتی راہداری” استعمال، بلوچستان میں صنعتی زونز کا قیام، اور بلوچستان کے قیمتی معدنیات کی لوٹ مار کے ایجنڈے شامل ہیں۔
متذکرہ بالا منصوبوں پر گزشتہ کئی سالوں سے پنجابی کالونائزر اور چینی سامراج باہم مل کر بلوچ قوم کی مرضی و منشاء کے بغیر کام کر رہے ہیں اور بلوچ وطن کو دولت کمانے کے ٹکٹ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ان دہائیوں میں چینی سامراج اور پنجابی نوآبادیاتی قوتیں بلوچ قوم کا خون بہا کر بلوچ سرزمین کا استعمال اور بلوچ وسائل کی مجرمانہ لوٹ مار کرتے آ رہے ہیں۔ ان نام نہاد معاہدہ جاتی منصوبوں کا بلوچ قومی ترقی اور خوشحالی سے کوئی واسطہ نہیں۔ بلکہ بلوچ وطن میں اس طرح کے نوآبادیاتی انفراسٹرکچر کی تعمیر کے مقاصد، پراجیکٹ کا آغاز یا ترقی کے دعوے پنجابی ریاست اور چین کے معاشی و اقتصادی مفادات اور منافع خوری پر مبنی ہیں۔ اور یہ چین و پاکستان کے سیاسی، اقتصادی اور فوجی مفادات کو پورا کرنے کا وسیلہ ہے۔ اس سے بلوچ قوم کو کوئی معاشی و اقتصادی فوائد حاصل نہیں ہوں گے، بلکہ یہ بلوچ قوم کی آزادی، خود مختاری، شناخت اور بقاء کے لیے سنگین خطرات کا باعث بنیں گے۔
ان معاہدوں کی تکمیل کے پیش نظر، اور بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کو دبانے کے لیے، گزشتہ دو دہائیوں سے بلوچستان میں خونریزی اور نسل کشی کے ہزاروں واقعات کے محرک پنجابی ریاست اور چین ہیں۔
اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ چین اس وقت پاکستان کو سب سے زیادہ اسلحہ سپلائی کرنے والا بڑا ملک ہے۔ چین پاکستان کو مختلف قسم کے اسلحے، ٹیکنالوجی، فوجی وسائل، جن میں لڑاکا طیارے، میزائل سسٹمز، فوجی گاڑیاں، اور دیگر اہم عسکری آلات فراہم کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی فوج کو مختلف شعبوں میں تربیت، جدید جنگی حکمت عملی کے طریقہ کار اور مختلف نوعیت کے جدید میزائل اور ایئر ڈیفنس سسٹمز، زیر سمندر دفاعی ٹیکنالوجی مہیا کر رہے ہیں۔ جبکہ دونوں افواج کے درمیان مشترکہ فوجی مشقیں بھی شامل ہیں، تاکہ مقبوضہ بلوچستان کو چین آسان اہداف کے ساتھ اپنی معاشی مفادات کے لیے استعمال کر سکے۔
لیکن چونکہ چین ایک نوآبادی ہے اور اسے معلوم ہے کہ گوریلا جنگ اور بلوچ حربی طاقت کو کوئی بھی طاقتور شکست نہیں دے سکتا، چاہے جتنے بھی جنگی حربے اور تکنیک استعمال کیے جائیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچ وطن مشرقی و مغربی ممالک کے درمیان جغرافیائی اور اہم تذویراتی نقطہ ہے۔ اس کی سرحدیں اور پورٹ اسٹریٹجک، قومی، بین الاقوامی اقتصادی، سیاسی اور عسکری تعلقات میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ خطہ جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرق وسطی کے سنگم پر واقع ہے، جو ایک عالمی تجارتی راہداری ہے۔ قدرت نے اسے بے پناہ مال و دولت سے نوازا ہے۔ تیل و گیس، سونا و تانبہ، لیتھیم، زنک، ملیبوڈیم، کیلشیم کاربونیٹ، سلفر، اونیکس، آئرن فلورائیڈ، ماربل، میگنائٹ، کلسائیڈ، پلاٹینیم سمیت سینکڑوں قسم کے معدنیات کی خزائن کی سرزمین ہے۔ اب تو یہاں قدرتی طور پر وائٹ گولڈ بھی دریافت ہو چکا ہے، حالانکہ وائٹ گولڈ دنیا میں اپنی قدرتی رنگت کے ساتھ کہیں بھی موجود نہیں۔ بلکہ اسے مصنوعی طریقے سے مختلف دھاتوں جیسے پلاٹینیئم، چاندی، پیلیڈیئم اور سونے کے آمیزے سے ایک خاص پروسیس کے ذریعے سفید رنگ دیا جاتا ہے۔ یہ دنیا کے لیے انسان ساختہ مرکب ہے، لیکن قدرت نے بلوچستان کو فطری طور پر اس سے نوازا ہے۔
بلوچستان نہ صرف زیر زمین وسائل کی وجہ سے اہمیت رکھتا ہے بلکہ جغرافیائی اور دفاعی لحاظ سے بھی یہ سنٹرل ایشیائی ریاستوں کا گیٹ وے ہے۔ یہ ایک ٹرانزٹ روٹ اور جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرق وسطی کے درمیان ہونے کی وجہ سے ایک ٹرانزٹ ہب ہے۔ اس اہمیت کی وجہ سے یہ عالمی تجارتی نیٹ ورک، زمینی، فضائی اور بحری رابطہ کاری میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ جہاں بعض ملکوں میں “Land, Air and Maritime Connectivity” کا تصور ہے، لیکن بلوچستان قدرتی طور پر اپنے جغرافیائی حجم میں یہ خصوصیت رکھتا ہے۔ بحر بلوچ جو عالمی دنیا کے لیے اقتصادی اور عسکری بحری گزرگاہ ہے، اور یہی وہ واحد راستہ ہے جسے چین نے پاکستان ریاست کے ہمراہ داری میں اپنے “بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو” کا حصہ بنانے کی ناکام کوشش کی ہے۔
چین کم سے کم لاگت اور زیادہ سے زیادہ منافع میں اپنی مصنوعات کی مشرق وسطی، خلیجی ممالک، دبئی، یورپ اور افریقی براعظم کی منڈیوں تک ترسیل کا مختصر راستہ سمجھتا ہے۔ چین کی مصنوعات کی فضائی اور بحری ترسیل کے لیے گوادر پورٹ اس لیے اہمیت رکھتی ہے کہ اس راستے سے ان کی مصنوعات یعنی تجارتی سامان مذکورہ بالا منڈیوں تک کم ترسیلی قیمت پر پہنچ جاتے ہیں، بجائے اس کے کہ چین سے اس کی فضائی ترسیل کے لیے کم از کم 2000 نٹک میل کا فاصلہ طے کرنا پڑے، جس سے اس کی مصنوعات کی قیمتیں زیادہ لاگت میں پہنچتی ہیں، جو ان منڈیوں میں اپنی زیادہ قیمت کی وجہ سے نہ صرف ان کی طلب کم کر سکتی ہے بلکہ اپنی مارکیٹ ویلیو بھی کھو دیتی ہے۔ اور چین عالمی مارکیٹ میں اپنے مصنوعات اس پیرامیٹر میں فروغ نہیں دے سکتا کہ وہ دوسرے ممالک کی اشیاء پر برتری حاصل کرے اور ان منڈیوں میں اپنی تجارتی ترسیل کو تیز کر سکے یا اپنے لیے مناسب جگہ بنا سکے۔
تو یہ بحری گزرگاہ (بحر بلوچ) اس کی تجارتی سفر کو مختصر بنا سکتی ہے۔
عالمی منڈی میں ہر ملک اور کمپنی کی مصنوعات میں مقابلہ بازی ہوتی ہے، اگر کسی مصنوعات کی قیمت زیادہ ہو تو خریدار دوسرے سستی متبادل کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح بحر بلوچ کے ذریعے چین نہ صرف کم فاصلوں بلکہ کم خرچ اور زیادہ شرح منافع سے اپنی مصنوعات باہر کی منڈیوں میں پہنچا سکتا ہے، جو چینی مارکیٹ میکانزم کو عالمی سطح پر فروغ دینے کے لیے آسان اور مختصر راستہ ثابت ہو سکتا ہے۔
نام نہاد سی پیک (چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور) سے جو سنکیانگ سے لے کر گوادر تک چین کا مشرق وسطی سے تجارتی فاصلہ 2000 میل کم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ چین کی نظریں بلوچ وطن کے معدنی وسائل پر ہیں، جہاں چینی کارپوریٹ کمپنیاں اور کاروباری ادارے گدھوں کی طرح بلوچ وسائل کی لوٹ مار کے لیے سرگرداں ہیں۔
(جاری ہے)