بلوچستان کے صنعتی شہر حب چوکی میں جبری لاپتہ بلوچ کارکن راشد حسین کی جبری گمشدگی کو چھ سال مکمل ہونے اور عدم بازیابی کے خلاف لواحقین کی جانب سے احتجاجی ریلی نکالی اور مظاہرہ کیا گیا۔راشد حسین، جو 2018 میں متحدہ عرب امارات سے لاپتہ ہوئے تھے، چھ سال سے جبری گمشدگی کا شکار ہیں۔ لواحقین کے مطابق راشد حسین 2017 سے جلاوطنی اختیار کیے ہوئے تھے اور متحدہ عرب امارات میں مقیم تھے وہاں سے انہیں اغوا کیا گیا اور چھ ماہ تک وہ متحدہ عرب امارات میں لاپتہ رہے۔ اس کے بعد انہیں بغیر کسی قانونی عمل یا دستاویزات کے پاکستان کے حوالے کر دیا گیا۔
لواحقین نے کہاکہ پاکستان منتقل کیے جانے کے بعد راشد حسین تاحال لاپتہ ہیں، ان کے اہل خانہ نے سندھ ہائی کورٹ، بلوچستان ہائی کورٹ، اسلام آباد ہائی کورٹ اور لاپتہ افراد کے کمیشنز و کمیٹیوں میں مقدمات دائر کیے، لیکن ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا۔
راشد حسین کی جبری گمشدگی کے چھ سال مکمل ہونے پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں راشد حسین کے وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ایمان مزاری نے کہا کہ پاکستانی وزارت خارجہ نے تسلیم کیا ہے کہ راشد کو پاکستان لایا گیا تھا، لیکن حکومت اور حکام ان کی موجودگی یا ان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔
آج احتجاج کے دوران راشد حسین کی والدہ نے اپنی چھ سالہ جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے کہا میں چھ سال سے اپنے بیٹے کی تلاش کر رہی ہوں، لیکن مجھے کوئی جواب نہیں دیا جا رہا۔
میرے بیٹے کو غیر قانونی طور پر اغوا کیا گیا، اور میں ہر عدالت اور کمیشن کے دروازے پر گئی ہوں، لیکن انصاف کے نظام نے میری مدد نہیں کی۔
انہوں نے کہا کیا یہ پاکستان کے قانونی نظام کا معیار ہے؟ کیا ماں کا اپنے بیٹے کے لیے انصاف مانگنا بھی جرم ہے؟ میرے بیٹے کو اگر کوئی جرم ثابت ہوا ہے تو اسے عدالت میں پیش کریں۔ لیکن وہ چھ سال سے غائب ہے، اور اس پر خاموشی ناقابل قبول ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے قانونی نظام نے ہمیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے میرے بیٹے کو لاپتہ رکھنا نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی بھی ہے میں تمام عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ ہماری آواز سنیں اور انصاف دلانے میں ہماری مدد کریں۔
اس موقع پر حب چوکی احتجاج میں دیگر لاپتہ افراد کے خاندان بھی شامل تھے۔
لاپتہ اسلم بلوچ کے والد نے کہا میرا بیٹا کئی سالوں سے لاپتہ ہے۔ ہمیں صرف جھوٹے وعدے اور دلاسے دیے جاتے ہیں، لیکن آج تک کوئی سنوائی نہیں ہوئی۔ ہم اپنے بچوں کی بازیابی تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
مظاہرے میں شہریوں اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی شرکت کی ۔
مقررین نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جبری گمشدگیوں کے مسئلے پر شدید تنقید کی۔
مظاہرین سے خطاب میں بی ایس او بچار کے سابق چیئرمین واحد رحیم اور عمران بلوچ نے خطات کرتے ہوئے کہا بلوچستان میں جبری گمشدگیاں ایک عام بات بن چکی ہیں۔ حکومت اور ریاستی ادارے اس مسئلے پر خاموش ہیں، جبکہ متاثرہ خاندانوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں اور ان کے احتجاج کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے یہ عمل نہ صرف غیر انسانی ہے بلکہ آئین اور قانون کی بھی خلاف ورزی ہے۔
انہوں کہا کہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے یہ عمل انصاف اور انسانی حقوق کے اصولوں کے منافی ہے۔ راشد حسین اور دیگر لاپتہ افراد کو فوری طور پر بازیاب کیا جائے اور ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
مزیدں برآں احتجاج کے شرکاء نے راشد حسین بلوچ سمیت تمام لاپتہ افراد کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ وہ انصاف کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ مظاہرین نے عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ اس انسانی المیے پر فوری توجہ دیں اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے اقدامات کریں۔