امریکہ کے سینئیر حکام کا کہنا ہے کہ شام میں اسد حکومت کے خاتمے سے، کم از کم فی الحال، اسلامک اسٹیٹ دہشت گرد گروپ کے خلاف جنگ میں واشنگٹن کے ایک سب سے ثابت قدم اتحادی کے لیے، امریکی حمایت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
امریکی حکام نے شام کے دارالحکومت میں باغی فورسز کے داخلے کے ایک روز بعد اور روسی حکام کی جانب سے شام کے سابق صدر بشار الاسد کے دمشق سے فرار اور ماسکو میں پناہ لینے کی تصدیق کے ایک گھنٹے بعد بات کرتے ہوئے، زور دیا کہ شام میں موجود لگ بھگ ان 900 امریکی فوجیوں کو تبدیل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے جن میں سے بیشتر ملک کے شمال مشرق میں کرد زیر قیادت ’سیرین ڈیموکریٹک فورسز‘ یا ایس ڈی ایف کے ساتھ کام کررہے ہیں ۔
امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے اتوار کو حساس معلومات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ،’’مشرقی شام میں امریکی پوزیشنز کو برقرار رکھنا ” ایک ایسا کام ہے جو ہم کرتے رہیں گے۔
شام میں آئی ایس آئی ایس کے خلاف امریکی حملے
اتوار کے روز امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ واشنگٹن کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ وہ شام یا ایس ڈی ایف (سیرین ڈیمو کریٹک فورسز) کو چیلنجوں کا سامنا کرنے کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دے۔
صدر نے کہا کہ “داعش کے خلاف ہمارا مشن برقرار رہے گا، جس میں حراستی مراکز کی سیکیورٹی بھی شامل ہے جہاں داعش کے جنگجوؤں کو قید میں رکھا جارہا ہے ۔”
بائیڈن نے مزید کہا کہ “ہم اس حقیقت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کہ اسلامک اسٹیٹ اپنی صلاحیتوں کی بحالی، ایک محفوظ پناہ گاہ کی تشکیل کے لیے کسی بھی خلا کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔” ’’ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔‘‘
امریکی عزم کو اجاگر کرتے ہوئے بائیڈن نے کہا کہ اتوار کو امریکی افواج نے آئی ایس کے کیمپوں اور کارندوں کے خلاف درجنوں فضائی حملے کیے ہیں۔
امریکی سینٹرل کمانڈ نے کہا کہ شام میں آئی اہس کے خلاف آپریشن میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے بمبار طیاروں، لڑاکا طیاروں اور قریبی فضائی مدد کے ذریعے 75 سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔
انتظامیہ کے سینئر اہلکار نے کہا، “ہم نے داعش کے جنگجوؤں اور رہنماؤں کے ایک اہم اجتماع کو نشانہ بنایا،” انہوں نے مزید کہا کہ امریکی جنگی طیاروں نے ان حملوں کے دوران تقریباً 140 گولے پھینکے، جن کی اجازت اتوار کے اوائل میں دی گئی تھی۔
اہلکار نے مزید کہا، “میرے خیال میں، علاقے کے سائز اور وہاں موجود آئی ایس آئی ایس کے ارکان کی تعداد کے پیش نظر یہ ایک اہم حملہ تھا ۔”
شام میں امریکی فوجی موجودگی کیوں ضرورری ہے؟
امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے اتوار کو صحافیوں کو بریفنگ کے دوران ہوئے اسلامک اسٹیٹ گروپ کا مخفف استعمال کرتے ہوئے، جسے آئی ایس یا داعش بھی کہا جاتا ہے، کہا،”ہم سمجھتے ہیں کہ ان علاقوں کے استحکام اور داعش کی دوبارہ سر اٹھانے کی کوششوں کو کچلنے کے لیے اور وہاں استحکام قائم رکھنے کے لیے ایس ڈی ایف اور ان گروپس کی سالمیت کے لیے بھی جن کے ساتھ ہم مشرق میں کام کرتے ہیں۔ وہ موجودگی انتہائی اہم ہے۔
سیرین ڈیمو کریٹک فورسز
ایس ڈی ایف 2015 میں تشکیل دیا جانے والا کرد اور عرب ملیشیاؤں کا ایک اتحاد ہے، جس میں 30,000 سے 40,000 جنگجوؤں کی ایک فورس کو اکٹھا کیا گیا تھا جس نے دہشت گرد گروپ کے خود اعلان کردہ شامی دارالحکومت رقہ سمیت علاقے کے بڑے بڑے حصوں پر داعش کی گرفت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
اپنے قیام کے چار سال بعد مارچ 2019 میں ایس ڈی ایف نے شام میں آئی ایس کے آخری مضبوط گڑھ باغوز پر قبضے کا اعلان کیا تھا ۔ لیکن اس ایک سالہ مہم کے دوران ایس ڈی ایف کے عہدے داروں کے اندازے کے مطابق ان کے لگ بھگ 11 ہزار جنگجو مارے گئے ۔ دہشت گرد گروپ کے بچے کھچے ارکان کے ساتھ لڑائی جاری ہے ۔
اس کے علاوہ ایس ڈی ایف کے پاس بے گھر افراد کے کیمپوں ، مثلاً الہول اور الروج کی سیکیورٹی کی نگرانی کا چارج بھی ہے ، جہاں تقریباً 30 ہزار لوگ رہتے ہیں ، جن میں سے بیشتر 12 سال سے کم عمر کے بچے ہیں، اور بہت سوں کا تعلق داعش کے وفادار خاندانوں سے ہے۔
داعش کی سرگرمیوں میں اضافہ
امریکہ اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک دونوں کی فراہم کردہ انٹیلی جینس معلومات سے ظاہر ہوا ہے کہ اس سال آئی ایس کی خاص طور پر شام کے وسطی صحرا میں چھوٹے گروپس کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے اور وہ دہشت گرد گروپ کا ایک بڑھتا ہوا لاجسٹک اڈا بن گیا ہے۔
مختلف اندازوں کے مطابق شام اور عراق میں آئی ایس کے جنگجوؤں کی تعداد بڑھ کر 2500 سے 5000 کے درمیان تک ہو چکی ہے۔
گزشتہ جولائی میں، امریکی سینٹرل کمانڈ نے، جو شام اور عراق میں امریکی افواج کی نگرانی کرتی ہے، خبردار کیا تھا کہ آئی ایس کے حملوں کی رفتار “2023 میں کیے گئے حملوں کی کل تعداد سے دوگنا سے زیادہ ہو چکی ہے ۔
اور آئی ایس نے شمال مشرقی شام میں ایس ڈی ایف کے زیر انتظام تقریباً 20 جیلوں میں قید اپنے 9,000 جنگجوؤں کو رہا کرنے کی بار بار کوششیں کی ہیں ۔
ایس ڈی ایف اور ترکیہ کے درمیان کشیدگی
ایسے میں کہ جب شمالی شام میں ترک حمایت یافتہ فورسز اور ایس ڈی ایف کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہو ئی ہیں۔ امریکی حکام کو اس کا بھی خدشہ ہے کہ ایس ڈی ایف اور ترکیہ کے درمیان جاری کشیدگی مزید عدم استحکام اور خطرے کو جنم دے سکتی ہے۔
امریکی عہدے داروں نے اتوار کو کہا کہ امریکہ کے محکمہ دفاع اور محکمہ خارجہ میں عہدے دار پہلے ہی ترکیہ کے اپنے ہم منصبوں کے ساتھ اعلیٰ سطح کے مذاکرات کر رہے ہیں ۔ جنہیں تعمیری قرار دیا جارہا ہے۔
عہدے دار نے کہا ہے کہ اضافی تنازع ، اضافی محاذ کا کھولا جانا ، کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔