پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان ایک پسماندہ صوبہ ہونے کے ساتھ تعلیمی بحران کا بھی شکار ہے، جہاں تعلیمی اداروں کا معیار اپنی بدترین شکل اختیار کرچکا ہے۔ تعلیمی اداروں کے اندر ریاستی سیکورٹی اداروں کی موجودگی، طلبہ کا ہاسٹلز سے جبری گمشدگی اور گرلز ہاسٹل میں ہراسمنٹ کیمروں کا نصب ہونا، بلوچستان کے تعلیمی حالات کی عکاسی کرتا ہے۔ ان حالات نے بلوچ طلبہ کو اسلام آباد اور پنجاب کے تعلیمی اداروں کی طرف رخ کرنے پر مجبور کیا، لیکن یہاں بھی انہیں پُرسکون تعلیمی ماحول میسر نہ آسکا۔ اسلام آباد اور پنجاب میں بلوچ طلبہ کو روز مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جاتا ہے اور انہیں جبری گمشدگی کا شکار بنایا جاتا ہے، جو کہ بلوچ طلبہ کے ساتھ ظلم و جبر کا نہ رُکنے والا تسلسل ہے۔
انہوں نے کہاکہ بلوچ طلبہ کی ماورائے عدالت جبری گمشدگی، پروفائلنگ اور ہراسمنٹ جیسے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کا تسلسل نہایت ہی تشویشناک ہے۔ گزشتہ روز، 31 اکتوبر کو راولپنڈی کے آئی جے پی میٹرو اسٹیشن کے قریب واقع بلوچ طلبہ کے فلیٹ پر رات ایک بجے کے وقت ریاستی سیکورٹی اداروں نے چھاپہ مارا اور وہاں موجود تمام طلبہ کو جبری طور پر لاپتہ کردیا۔ لاپتہ طلبہ میں نمل یونیورسٹی اسلام آباد کے 10 طالبعلم شامل ہیں، جن میں سالم عارف، بالاچ فدا، خدا داد، خلیل احمد، خلیل اقبال، حمل حسنی، بابر عطا، نور مہیم، افتخار عظیم، اور احسام اکبر شامل ہیں، جن کے سیمسٹر مڈ ٹرم امتحانات جاری ہیں۔ 1 نومبر کو طلبہ نے راولپنڈی کے نیو ٹاؤن تھانے میں اپنے 10 گمشدہ ساتھیوں کی بازیابی کیلئے رپورٹ درج کرانے کی کوشش کی لیکن پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کردیا۔ پاکستان میں بلوچ طلبہ کے اغوا اور ہراسانی کی بڑھتی ہوئی شرح انتہائی سنگین مسئلہ ہے جسے فوری حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے قبل ایرڈ ایگریکلچر یونیورسٹی راولپنڈی کے طالبعلم فیروز بلوچ کو 11 مئی 2022 کو یونیورسٹی لائبریری جاتے ہوئے جبری لاپتہ کیا گیا اور دو سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود ان کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ فیروز بلوچ کے کلاس فیلو احمد خان بلوچ کو بھی بلوچستان کے علاقے تربت سے جبراً لاپتہ کیا گیا۔ ان کی بازیابی کیلئے عدالتوں میں انصاف کی اپیلیں، مختلف جگہوں پر احتجاجی مظاہرے اور کیمپ لگائے گئے مگر تاحال کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔
انہوں نے کہاکہ آپ صحافی حضرات تاحیات گواہ رہیں گے کہ ریاستی سیکورٹی اداروں کی جانب سے بلوچ شناخت کو بنیاد بنا کر بلوچ طلبہ کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں اور بلوچ نسل کشی، جن میں سرفہرست جبری گمشدگی اور لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنے کے خلاف کیچ سے شال اور پھر شال سے اسلام آباد تک مارچ کیا گیا۔ بلوچستان سے ہزاروں لوگوں نے ریاستی ظلم و جبر کے خلاف اس مارچ میں شامل ہوکر ریاست کی ظالمانہ پالیسیوں پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا، لیکن بلوچ عوامی ردعمل کے باوجود ریاست اپنی پالیسیوں میں کسی بھی طرح کی تبدیلی لانے کیلئے تیار نہیں ہے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد وفاق اور پنجاب میں بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگیوں کے خلاف سخت سے سخت اقدامات کا حق رکھتی ہے اور اس جبر و ظلم کے خلاف قانونی چارہ جوئی سمیت ہر ممکنہ اقدام اٹھانے کے لئے پرعزم ہے۔ لہذا ریاستی اداروں کو 24 گھنٹے کی مہلت دی جاتی ہے کہ ہمارے 10 بلوچ طلبہ کی فوری بازیابی کو یقینی بنایا جائے ورنہ ہم سخت سے سخت قدامات اٹھانے پر مجبور ہوں گے۔