کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ جاری

90

بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے قیادت میں جاری طویل بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 5588 دن مکمل ہوگئے، نال گریشہ سے محمد خان بلوچ، ضامن چینگزی و دیگر کیمپ آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

کیمپ آئے وفد سے اظہار خیال کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا بلوچستان میں ریاستی فورسز کے جبر و استبداد میں جس خطرناک حد تک روز افزوں اضافہ ہورہا ہے وہ بلوچ سرزمین پر ایک سنجیدہ انسانی المیہ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے ریاستی فورسز کی تشدد میں گذشتہ تین ماہ میں مزید شدت پائی جارہی ہے اب ریاست بلوچستان میں کسی بھی عالمی قانون کو خاطر میں لانے کا فیصلہ کر چکی ہے اپنے پیش روحوں کی طرح سروں کا چنار کھڑا کرنے سے بھی نہیں ہٹے گا-

ماما قدیر بلوچ نے کہا صرف گذشتہ ایک ماہ کے دوران ریاستی فورسز نے فضائی اور زمینی آپریشن کے ذریعے 50 سے زائد بلوچ نوجوانوں کو جبری اغوا اور کئی شہید کر کے جبری اغوا تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنے عقوبت خانوں میں منتقل کر چکے ہیں-

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں ریاستی فورسز کے اس طرز کے کارروائیوں کے پیش نظر یہ غالب امکان ہے کہ مذکورہ معنوی بلوچوں کے جان کو شدید خطرات لاحق ہیں کیونکہ ریاستی خفیہ ادارے تبدیل کے ساتھ اس طرح بلوچوں کو اغوا کر کے بہیمانہ اور غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنا کر اُنہیں شہید کر کے ان کی لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں نشان عبرت کے لیے پھینکتے آ رہے ہیں-

انہوں نے مزید کہا بلوچوں کو عرصہ دراز سے ریاست پاکستان اور اُس کے کسی بھی ادارے سے رحم اور انصاف کی کوئی بھی امید نہیں لیکن بطور انسان بلوچ عالمی اداروں اقوام متحدہ ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کے علمبرداروں سے یہ توقع اور اُمید رکھتی ہے کہ وہ بلوچستان میں جاری بلوچ نسل کشی اور انسانی حقوق سنگین پامالیوں کا نوٹس لیکر مداخلت کریں گے اور ناصرف بلوچوں جان و مال اور ننگ ع ناموس چادر چار دیواری کے تقدس کو یقینی بنائیں گے-