ریاست نے گوادر و نواح میں غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کر دیا ہیں – بی وائی سی

361

بی وائی سی کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم آپ کی توجہ ایک انتہائی اہم اور سنگین انسانی مسئلے کی جانب مبذول کروانا چاہتے ہیں کہ بلوچستان اس وقت مکمل ایک جنگ زدہ خطہ بن چکا ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے 28 جولائی کو گوادر میں ایک قومی اجتماع کا اعلان کیا گیا تھا۔ 20 جولائی سے ریاست پاکستان نے بلوچ قومی اجتماع کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا۔ ریاست پاکستان اپنے تمام مشینری اور طاقت اس پرامن عوامی اجتماع کو روکنے کے لیے استعمال کر رہی ہے اور بدترین انسانی حقوق کی پامالیوں کا مرتکب ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے 28 جولائی کو گوادر میں بلوچ قومی اجتماع کا انعقاد کا اعلان کیا گیا تھا۔ ریاست پاکستان نے بلوچ قومی اجتماع کو روکنے کے لیے 26 جولائی سے ہی گوادر سمیت قریب و جوار کے تمام علاقوں میں غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کر دیا جو تاحال جاری ہے۔ 26 جولائی سے گوادر سمیت مکران کے بیشتر علاقوں میں انٹرنیٹ مکمل طور پر بند ہے۔ گوادر میں نہ کسی کو اندر جانے کی اجازت دی جا رہی ہے اور نہ باہر آنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔
28 جولائی کے دن جب گوادر شہر کے عوام ریاستی دہشتگردی، طاقت اور خوف کے سامنے پرامن طور پر ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکل کر بلوچ راجی مچی کے لیے پہنچے تو ریاستی فوج نے پرامن شرکا پر اندھادھند فائرنگ کی جس سے ایک نوجوان موقع پر ہی شہید ہو گیا اور سات زخمی ہو گئے جن میں دو کی حالت اب بھی خطرے میں ہے۔ اس وحشت اور درندگی کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں بلوچ راجی مچی کے شرکاء پرامن رہے اور راجی مچی کو دوبارہ جاری کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ اس ریاستی دہشتگردی کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بلوچ راجی مچی کو دھرنے میں تبدیل کیا اور دھرنے کےدو مطالبات رکھے۔ ایک، بلوچستان کے تمام شاہراہوں کو کھول کر بلوچ راجی مچی میں شرکت کرنے والے تمام قافلے جو اس وقت ہزاروں کی تعداد میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں زبردستی روکے گئے ہیں، انہیں باحفاظت گوادر آنے کی اجازت دی جائے۔ دوسری، وہ تمام شرکاء جنہیں بلوچستان اور کراچی کے مختلف علاقوں سے گرفتار کیا گیا ہے، انہیں رہا کیا جائے ۔ لیکن طاقت اور وحشت کے غرور میں غرق ریاست اور اس کے اداروں نے دھرنے میں بیٹھے پرامن شرکاء جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی، کے مطالبات سننے کے بجائے 29 جولائی کی صبح ریاستی فوج نے چاروں طرف سے دھرنا گاہ کو گھیر کر اندھادھند فائرنگ شروع کر دی اور لاٹھیوں سے پرامن خواتین اور بچوں پر حملہ آور ہوئے جس میں خواتین و بچوں سمیت متعدد شرکاء زخمی ہوئے۔

انہوں نے کہاکہ وحشت اور درندگی کی انتہا یہ رہی کہ زخمیوں کو ہسپتال تک جانے نہیں دیا گیا اور نہ ہی ایمبولینس کو اس جگہ تک آنے کی اجازت دی گئی۔ جی ڈی اے ہسپتال گوادر کو سیل کر دیا گیا اور وہاں کسی مریض کو جانے نہیں دیا گیا۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کو اٹھاتے رہے۔ سینکڑوں پرامن شرکاء کو گرفتار کیا گیا، راجی مچی کے لیے اسٹیج کے طور پر استعمال ہونے والے ٹرک کو نظر آتش کیا گیا اور اس کے قریب شرکاء کی جتنی بھی گاڑیاں کھڑی تھیں سب کو نظر آتش کر دیا گیا اور نقصان پہنچایا گیا۔ اس کے بعد گوادر کے گھر گھر میں چھاپے مارے گئے، لوگوں کی گاڑیاں اور قیمتی سامان کو نقصان پہنچایا گیا جبکہ نیشنل پارٹی کے رہنما اشرف حسین سمیت سینکڑوں لوگوں کو ان کے گھروں سے جبری طور پر گمشدہ کیا گیا۔

28جولائی کی رات کو جس وقت دھرنا جاری تھا وہاں ریاستی خفیہ اداروں نے ڈیتھ اسکواڈ کے دو مسلح کارندوں کو دھرنے میں بھیج کر بلوچ یکجہتی کمیٹی کی لیڈرشپ کو نشانہ بنانے کی ٹاسک دی تھی لیکن خوش قسمتی سے وہاں موجود عوام نے ان کی شناخت کی تھی کہ یہ ڈیتھ اسکواڈ کے لوگ ہیں جس پر دھرنا منتظمین نے ان کی تلاشی لی تو ان سے پستول ، واکی ٹاکی اور شناختی کارڈ برآمد ہوئے، جس نے اپنے ویڈیوں میں اعتراف کیا کہ میں ایم آئی کا اہلکار ہوں اور مجھے یہاں بلوچ راجی مچی کے لیڈرشپ کو مارنے کی ٹاسک دی گئی تھی ۔

انہوں نے کہاکہ جبکہ گوادر میں 28 جولائی کی صبح سے اس وقت 48 گھنٹے سے زائد کا وقت گزر چکا ہے اور موبائل نیٹ ورک تاحال بند ہے جس کے سبب ہمیں وہاں ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں سنگین خدشات لاحق ہیں۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کو گرفتار کیا گیا ہے اور پولیس و انتظامیہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کی گرفتاری کو ظاہر نہیں کر رہی ہے جس کے زندگیوں کو متعلق ہمیں شدید خدشات لاحق ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کو گرفتار کرکے بلوچستان حکومت و ریاست ایک سنگین جرم کا مرتکب ہو رہی ہے جس کے ردعمل اور نتائج کا انہیں ذرہ برابر بھی اندازہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ بلوچ راجی مچی کے لیے بلوچستان کے مختلف علاقوں کے قافلے کوئٹہ میں یکجا ہوکر 27 جولائی کی صبح کوئٹہ سے گوادر کے لیے روانہ ہوئے۔ کوئٹہ سے روانہ ہوتے ہی انہیں ریاستی فوج کی جانب سے روکا گیا اور رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ قافلے میں تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے عوام نے رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے مستونگ پہنچ گئے۔ مستونگ میں ریاستی فوج نے قافلے پر سیدھی فائرنگ کی، جس سے 14 شرکاء زخمی ہوگئے اور تین کو گولیاں سر پر لگیں۔ وہ اس وقت شدید زخمی حالت میں ہیں اور کوئٹہ ٹراما سینٹر میں زیر علاج ہیں۔ اس کے بعد فوج نے قافلے کی تمام گاڑیوں کے ٹائروں کو برسٹ کر دیا جس سے تمام گاڑیوں کے ٹائر ناکارہ ہوگئے، جبکہ سیدھی فائرنگ کی وجہ سے تمام گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ چکے ہیں۔ بلوچ قومی اجتماع کے لیے جانے والا اس قافلے کے ہزاروں لوگ گزشتہ تین دنوں سے مستونگ میں دھرنا دیے بیٹھا ہے۔
تلار گوادر سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جہاں ریاستی فوج کا بہت بڑا کیمپ اور چیک پوسٹ ہے۔ بلوچ راجی مچی میں شرکت کرنے والے وہ تمام قافلے جو تلار پہنچ چکے ہیں، انہیں 26 جولائی سے تلار چیک پوسٹ پر روکا گیا ہے۔ اس وقت سینکڑوں گاڑیوں پر مشتمل ہزاروں لوگوں کو بلوچ راجی مچی میں شرکت کرنے کے لیے تلار چیک پوسٹ پر بندوق کے زورپر یرغمال بنایاگیا ہے، جبکہ متعدد لوگ طبیعت خراب ہونے کے باعث واپس آگئے ہیں۔ تلار سے واپس آنے والے لوگوں نے ویڈیوز اور فوٹیجز بنائی ہیں جس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ریاستی فوج لوگوں پر تشدد کر رہی ہے، سیدھی فائرنگ کر رہی ہے اور آنسو گیس کے شیل پھینک رہی ہے، جس سے متعدد لوگ زخمی اور دو لوگ شہید ہونے کی اطلاعات ہیں۔ لیکن انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک بند ہونے کی وجہ سے ہمیں زخمیوں اور نقصانات کی مکمل تفصیلات نہیں پہنچ رہی ہیں۔ ہمیں خدشہ ہے کہ وہاں حالات شدید خراب ہوں گے اور راجی مچی کے ہزاروں شرکاء کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ ہمیں ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں شدید خطرات لاحق ہیں۔

مزید کہاکہ بلوچ راجی مچی میں شرکت کرنے کے لیے کراچی اور حب کے قافلے 27 جولائی کی صبح روانہ ہوئے لیکن انہیں کراچی یوسف گوٹھ اور حب باوانی کے مقام پر روکا گیا تھا۔ تقریباً 12 سے 14 گھنٹے بعد انہیں جانے کی اجازت دی گئی لیکن 200 کلومیٹرز کے بعد ہنگول بزی ٹاف کے مقام پر انہیں دوبارہ روکا گیا ، شرکاء پر فائرنگ کی گئی اور تشدد کیا گیا جبکہ تمام گاڑیوں کے ٹائر برسٹ کیے گئے اور انہیں آگے جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس قافلے میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے جو ایک رات ہنگول میں گزارنے کے بعد واپس اوتھل زیروپوائنٹ آگئے۔ ایک دن انہوں نے وہاں دھرنا دیا اور کل انہوں نے گڈانی کراس پر دھرنا دیا۔
بلوچ راجی مچی کو ناکام بنانے کے لیے گزشتہ ایک ہفتے سے بلوچستان کے متعدد علاقوں میں راجی مچی کی تیاریوں میں مصروف پر امن کارکنان کے گھروں میں چھاپے مارے گئے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے اس وقت سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن کے متعلق ہمیں کوئی معلومات فراہم نہیں کی جا رہی ہیں۔ ہمارے معلومات کے مطابق 150 سے زائد لوگ اس وقت ہدہ جیل کوئٹہ میں غیر قانونی طور پر بند ہیں لیکن ہمیں ان کے متعلق بھی کسی قسم کی معلومات نہیں دی جا رہی ہیں۔ جبکہ بلوچستان کے متعدد علاقوں میں پرامن کارکنان پر درجنوں جھوٹی ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ گزشتہ 72 گھنٹوں سے زائد عرصے سے پورا بلوچستان جنگ زدہ ہے، لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے نام نہاد میں اسٹریم کے صحافی اور صحافتی ادارے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور صحافتی شعبے کے لیے انتہائی شرم کا مقام ہے کہ چند ایک حقیقی صحافیوں کے علاوہ کوئی بھی نام نہاد مین اسٹریم صحافی اور میڈیا نے اس انتہائی سنگین مسئلے پر ایک لفظ بھی نہیں بولا ہے۔ تمام نام نہاد مین اسٹریم کے صحافی خاموش ہیں اور اس کے برعکس قاتلوں اور جابروں کو اپنے ٹاک شوز میں دعوت دے کر مظلوموں کے موقف کو سامنے لانے کے بجائے ظالموں کے موقف کو سامنے لا رہے ہیں۔ بلوچستان کے معاملات پر پاکستان کے مین اسٹریم میڈیا اور صحافی بھی ریاست اور ریاستی نمائندوں کے کام کر رہے ہوتے ہیں۔اگر بلوچستان کے متعلق صحافتی اداروں کا رویہ یہ رہا تو ہم بلوچستان میں مقامی پرنٹ میڈیا کے علاوہ باقی تمام نام نہاد مین اسٹریم کے پرنٹ اور الیکڑونک میڈیاکا مکمل طور پر بائیکاٹ کریں گے ۔

ہم اس وقت بلوچستان کے سنگین انسانی حقوق کی صورتحال پر تمام بین الاقوامی صحافتی اداروں اور صحافیوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ صحافتی اقدار اور اصولوں کا احترام کرتے ہوئے بلوچستان کے جنگ زدہ حالات، گوادر میں مکمل کرفیو کے نفاذ اور ریاستی پاکستان کے بربریت اور مظالم کے خلاف آواز اٹھائیں اور بلوچستان کو کوریج دیں۔

انہوں نے کہاکہ آخر میں ہم ریاست اور اس کے تمام اداروں کو واضح کرتے ہیں کہ فوراً بغیر کسی اگر و مگر کے ہمارے لیڈرشپ سمیت تمام گرفتار ساتھیوں کو رہا کریں، گوادر سمیت مکران بھر میں انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک کو بحال کریں اور بلوچستان کے تمام علاقوں میں زبردستی بندوق کے زور پر روکے گئے ہمارے تمام قافلوں کے سامنے سے پوری طور پر رکاوٹیں دور کریں۔ اگر ریاست اور اس کے اداروں نے اب بھی اپنے دہشتگردانہ اور جابرانہ رویے کو تبدیل نہیں کیا تو آج سے ہم غیر معینہ مدت تک کوئٹہ سمیت پورے بلوچستان کو بند رکھیں گے اور دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تو اس کی تمام تر ذمہ داری ریاست اور اس کے اداروں پر عائد ہوگا۔ ہم اس پریس کانفرنس کے توسط سے بلوچستان بھر میں بی وائی سی کے کارکنان اور بلوچ عوام کو مطلع کرتے ہیں کہ بلوچستان بھرمیں پرامن اور منظم انداز میں دھرنا دیا جائے، احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں اور پہیہ جام اور شٹرڈاؤن ہڑتال کی جائے۔